Saturday, July 16, 2011

25 Advices for Ramadan

25 Advices for Ramadan



1. Fast Ramadhan with belief and truly seeking the reward of Allah the Most High so that He may forgive you your past sins.

2. Beware of breaking your fast during the days of Ramadhan without a valid Islamic excuse, for it is from the greatest of sins.

3. Pray Salat ut-Taraweeh and the night prayer during the nights of Ramadhan – especially on Layatul-Qadr – based on belief and truly seeking the reward of Allah, so that Allah may forgive you your past sins.

4. Make sure that your food, your drink and your clothing are from halal means, in order that your actions be accepted, and your supplications answered. Beware of refraining from the halal while fasting and breaking your fast with the haram.

5. Give food to some fasting people to gain a reward similar to theirs.



6. Perform your five prayers on time in congregation to gain the reward and Allahs protection.


7. Give a lot of charity for the best charity is that of Ramadhan.

8. Beware of spending your time without performing righteous deeds, for you will be responsible and reckoned for it and will be rewarded for all you do during your time.

9. Perform `umrah in Ramadhan for `Umrah in Ramadhan is equal to Hajj.


10. Seek help for fasting during the day by eating the sahoor meal in the last part of the night before the appearance of Fajr.


11. Hasten breaking your fast after the sun has truly set in order to gain the love of Allah.

12. Perform ghusl before fajr if you need to purify yourself from the state of major impurity so that you are able to do acts of worship in a state of purity and cleanliness.

13. Cease the opportunity of being in Ramadhan and spend it with the good that has been revealed in it – by reciting the noble Quran and pondering and reflection of its meanings so that it be a proof for you with your Lord and an intercessor for you on the Day of Reckoning.

14. Preserve your tongue from lying, cursing, backbiting and slander for it decreases the reward of fasting.

15. Do not let fasting cause you cross your boundaries by getting upset due to the slightest of reasons. Rather, fating should be a cause of peacefulness and tranquility of your soul.



16. Upon completion of fasting, be in a state of taqwa of Allah the Most High, being aware of Allah watching you in secret and in public, in thankfulness for His favors, and steadfastness upon obedience of Allah by doing all what He has ordered and shunning all that He has prohibited.

17. Increase in remembrance of Allah, seeking of forgiveness, asking for Paradise and protection against the Fire, especially when fasting, while breaking the fast and during suhoor, for these actions are among greatest causes of attaining Allahs forgiveness.

18. Increase in supplication for yourself, your parents, your children and Muslims, for Allah has ordered making of supplications and has guaranteed acceptance.

19. Repent to Allah with a sincere repentance in all times by leaving sins, regretting those that you have done before and firmly deciding not to return to them in the future, for Allah accepts repentance of those who repent.

20. Fast six days of Shawwal, for whoever fasts Ramadhan and then follows it with six days of Shawwal, it is as if he fasts all the time.


21. Fast on the Day of `Arafah, the 9th of Dhul Hijjah, to attain success by being forgiven your sins of the last year and the coming year.

22. Fast on the day of `Aashuraa, the 10th of Muharram, along with the 9th, to attain success by being forgiven your sins of the past year.

23. Continue being in a state of iman and taqwa and perform righteous actions after the month of Ramadhan, until you die. And worship your Lord until there comes to you the certainty (i.e. death). [Quran 15:99]

24. Ensure that you attain the positive effects of your acts of worship such as prayer, fasting, zakat and hajj, sincere repentance and leaving of customs that are in variance with the Sharee`ah.

25. Invoke a lot of salawat and salam upon the Messenger of Allah, may Allahs blessings and peace be upon him, his Companions and all those who follow them until the Day of Judgment.


O Allah make us and all Muslims of those who fast and stand in prayer during the month of Ramadhan based on belief and truly seeking Your reward so that we are forgiven our past and future sins.

O Allah make us of those who fasted the month, attained full reward, witnessed Layatul-Qadr and attained success by permission of the Lord, Blessed and Most High.

O Allah, verily you are Forgiver, like to forgive, so forgive us.

O Lord, accept from us, verily you are the All-Hearing, all-Seeing, O Living, O Independent, O Owner of all majesty and honor.


Tuesday, July 5, 2011

A Short Biography Of امام ابو حنیفہ رضي الله عنه


A Short Biography Of امام ابو حنیفہ رضي الله عنه 

 



امام ابو حنیفہ رضي الله عنه 

امام ابوحنیفہ اسلامی عالم تھے جن کی وجہ شہرت احادیث
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اکٹھا اور تدوین دینے کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جو اس مجموعہ حدیث کو ہی کامل مانتے ہیں حنفی کہلاتے ہیں اور ابوحنیفہ اسطرح اس فقہ حنفی کے بانی امام سمجھے جاتے ہیں۔

ابتدائی زندگی

آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپkhk کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔

آپ کے سفر

امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔

اساتذہ

علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقيه كےعالم هين .آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل هے.


درس و تدریس

آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے ۔



تلامذہ

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ
امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ
امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ
امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ
امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ
امام داؤد بن نصیررحمۃ اﷲ علیہ
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔



اہم تصانیف

آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
الفقه الأکبر
الفقه الأبسط
العالم والمتعلم
رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
وصية الامام أبي حنيفة
المقصود فی علم التصریف کتاب الوصیۃ لجمیع الامۃ الوصیۃ لعثمان السبتی کتاب الوصیۃ لابی یوسف الوصیۃ لاصحابہ الکبار الرسالہ الی نوح بن مریم اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد ۲۷ کے قریب ہیں


فقہ حنفی

امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:

’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

حق گوئی

جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کردیا۔ اور کہا کہ ’’اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں۔‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔


عظمت ابوحنیفہ

ایک دفعہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا: پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا: اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔





وفات

150ہجری میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔
اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کااظہار کیا۔
ابن جریح مکہ میں تھے۔ سن کر فرمایا ’’بہت بڑا عالم جاتا رہا‘‘
شعبہ بن المجاج نے کہا ’’کوفہ میں اندھیرا ہوگیا‘‘
عبداللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہا ’’افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا‘‘
سلطان الپ ارسلان نے ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔
امام صاحب میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہء امتیاز تھا۔



Imam Abu Hanifa رضي الله عنه key Esal-e-Sawab Key Liye 
1 bar sure Fateha 3 Bar Sure Iklas Par kar esal Kardyn, 


الله عزوجل كى ان پر رحمت هو اور ان كے صد قے همارى مغفرت هو

.آمين بجاه النبي الامين صلى الله تعالى عليه وسلم

Sunday, July 3, 2011

شعبان المعظم


شعبان المعظم

رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ ماہِ شعبان المعظم بہت ہی برگزیدہ مہینہ ہے اور اس ماہ مبارک کی عبادت کا بیحد ثواب اللہ تعالٰی عطا فرماتا ہے۔

اے رب کا ئنات ! ساری تعر يفيں تير ے لئے ہيں۔تووحدہ لاشريک ہے۔باغوں ميں کھلے ھو ئے پھولوں کا حسن دلفر يب،درياؤں کی روانی،آسمانوں کی وسعتيں،ليل ونہا ر کا بدلنا تير ے خالق ھونے پر دال ہے۔تيری کن کن نعمتوں کا شکر اداکيا جائے۔تو اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ھے۔توان کی تربيت صحيحہ کی خاطر کيسے کيسے سامان مہيا کرتا ہے۔اے رب جليل !تيری تعر يف ميں صبح و شام عند ليبان چمن کے نغموں سے فضا معمور رہتی ہے۔بے شمار فرشتے ہر وقت تيرے حضور سر سجود رہتے ہيں۔کوہ و دمن سے سبحان تيری قدرت کی آوازيں اٹھتی رہتی ھيں۔ليکن تيری تعريف کا حق پھر بھی ادا نہيں ھوتا۔ھو بھی کيسے؟جہان کے سمندر سيا ہی بن جائيں۔يہ خشک ھو سکتے ھيں ليکن تير ی تعر يف کا حق ادا نہيں ھو سکتا ھے۔اے رب عليم و خبير تو دلوں کی جا ننے والا ھے۔اپنے عا جز بندے کی طرف سے
اپنی تعر يف و ثنا ميں يہ حقير سا ہديہ قبول فرما۔الحمد للہ رب العا لمين۔

اے اللہ ! تيرے بعد تيرے حبيب صلی اللہ عليہ وسلم کی شان ھے ۔ہم تيری ہی تو فيق سے تيرے حبيب صلی اللہ عليہ وسلم کے حضور التجا کرتے ھيں۔اے آقا ! کروڑوں درود ہوں آپ پر کہ آپ کے بحر عظمت ميں بھی لا کھوں با کمال غواص غو طہ زن ہوئے ليکن اس بحرے پاياں
کا کنارہ نظر نہ آيا۔تھک ہا ر کر آخر يہی کہنا پڑا۔

" بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر "
اے امت کے سہارے !ان رحمتوں سے ہمارا بھی کوئی حصہ ہو جائے جودن رات تيرے قبہ انور
پر برستی رہتی ہيں۔

صلی اللہ عليک يا رسول اللہ وسلم عليک يا حبيب اللہ
نا ظرين ! اپنے خالق کی نعمتوں کو ديکھو ! اس نے کھا نے پينے کے لئے ديا،پہننے کا بندوبست کيا،ہماری سہو لت کے لئے درياؤں اور ہواؤں کو مسخر کر ديا،ہميں شعور بخشا تاکہ ہم مسائل زيست کو خوش سلوبی سے حل کر سکيں۔اگر وہ ہماری ايک آنکھ لے ليتا ،ہميں لنگڑ ا بہر ہ کر ديتا ، تو ہم اس کا کيا بگاڑ سکتے تھے۔قطعاً نہيں،ہميں ہر حال ميں اللہ
کا شکر گزار رہنا چا ہيے۔

ستم ظريفی تو يہ کہ بجا ئے اللہ کو يا د کرنے کے لہو و لعب ميں پڑے ہو ئے ہيں۔احکام خداوندی پر عمل تو ايک جا نب آج ہم کھلم کھلا اسلام کی حدود سے تجاوز کر رہے ہيں۔اپنے معا شرے ميں نظر دوڑائيے آج ہم ميں کونسا عيب نہيں۔کيا آج شراب نہيں پی جاتی؟کيا رقص وسرور کی محفليں منعقد نہيں ہو تيں؟کيا آج سود کی دکا نيں بند ہو چکی ہيں ؟ کيا آج ہم ناموس مصطفٰی صلی اللہ عليہ وسلم کو داغدار کرنے کی کو شش نہيں کر رہے ؟ سو چئے ! خدارا سو چئے ! ! ! اپنے گريبان ميں جھا نک کر فيصلہ کيجئے کہ کہاں تک
اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے ہيں۔

وائے نا کا می مسا ع کارواں جا تا رہا
کارواں کے دل سے احساس زياں جا تا رہا
کيا آج ہم خدائی گرفت کے قابل نہيں؟ہم عذاب الٰہی کے مستحق نہيں؟جواب نفی ميں نہيں
،اثبات ميں ملے گا۔

قطع نظر اپنے اعمال کے اللہ تعالٰی تو بڑا رحمان ہے۔غفورالرحيم ہے۔ھر وقت اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ھے۔اگر آج ہم خلوص نيت سے عہد کر ليں کہ غيبت،شراب نوشی،شرک،لواطت،زنا،سود خوری جيسی حرکات قبيح سے بچتے رہيں گے۔ہم کتمان حق کی طرف نہيں جا ئيں گے۔عيا شی،ظلم و تکبر ہمارا شيوہ نہ ہوگا۔ہماری عبادتوں ميں ريا کاری اورخود نمائی کار فرمانہ ہوگی۔ہماری بہنيں ناچ و رنگ،فحش گانوںاور شوھروں کی نافرما نی سے بچتی رہيں گی۔تو آپ ديکھيں جہاں اللہ تعا لٰی ہم پر سکون واطمينان اتارے گا،وہاں ہم میں ايک بار پھر وہ جذبہ عود آئے گا۔جس سے ہم دين محمد ي صلی اللہ عليہ وسلم کو تمام اديان پر غا لب کر سکيں گے۔عدل و انصاف کے پر چم گاڑے جائيں گے،اخوت و مساوات کا
دور دورہ ہوگا۔

قرآنی رو سے اگر انسان کی تخليق کا مقصد جا نا جا ئے تو صرف اللہ کی عبادت ہے۔جيسا کہ اللہ تعا لٰی نے فر ما يا۔ " نہيں پيدا کياميں نے انسان کو مگر اپنی عبادت کے لئے"۔

انسان فطر تاً کمزور واقع ہوا ہے ۔کما حقہ اس کی عبادت کا حق ادا نہيں ہو سکتا۔کيو نکہ اس سے اس معا ملہ ميں اکثر کو تا ہی ہو تی رہتی ھے۔رغبت ہميشہ گناہ کی طرف رہتی ہے۔کوئی شخص ايسا دعوے سے کہہ سکے کہ ميں اللہ کے حقوق پورے کرتا ہوں ۔ليکن اس کے مقا بلے ميں رحمت خداوندی بہت وسيع ہے۔اللہ تبارک و تعالٰی اپنے بندوں پر ابواب رحمت کھو لنے کی خا طر مختلف مواقع فراہم کرتا ہے۔جن کی بر کت کے طفيل گناہ گار انسان اپنےقلب کوگناہ کی آلودگيوں سے پاک کرسکتاہے۔مثلاًجمعہ شريف ميں ايک سا عت،
ليل البراة،ليل القدر،شب معراج،ليل العرفہ وغيرہ۔

اب ہم پر فرض عائد ہوتاہے کہ ہم ان سا عتوں سے فا ئدہ اٹھائيں۔جہاں تک ہوسکےان ايام ميں
گڑ گڑا کر رب کا ئنات سے مغفرت طلب کريں چونکہ ان صفحات ميں صرف فضائل شعبان کے
فضا ئل مطلوب ہيں۔اس لئے دوسرے با برکت ايام کےلئے صرف اشارہ ہی کا فی ہے۔
شعبان کی فضيلت
حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ فرماتے ہيں۔

"اللہ تعالٰی نے چار چيزيں اختيار کيں اور ان ميں ايک کوچن ليا۔ملائکہ ميں جبرائيل کو ديگر
فرشتوں پر فضيلت دی، انبياميں موسٰی عليہ السلام،ابراہيم عليہ السلام،عيٰسی عليہ السلام اورحضور محمد مصطفٰی صلی اللہ عليہ وسلم کو چن کر محمد صلی اللہ عليہ وسلم کو سب پر فضيلت دی،خلفا ميںصديق اکبر رضی اللہ تعالٰی کو بلند مقام بخشا،مساجد ميں مسجد حرام،
مسجد اقصٰی،مسجد نبوی اور مسجد سينا کو چن کر مسجد حرام کو فضيلت دي۔اسی طرح مہينوں ميں چار ماہ چن لئے۔رجب،شعبان،رمضان،محرم اور ان ميں شعبان کو چن ليا۔۔۔۔۔۔۔۔"

غوث پاک رحمتہ اللہ شعبان کي فضيلت بيان کرتے ہوئے مزيدفر ماتے ہيں:۔
شعبان کی فضيلت کی وجہ يہ ہے کہ اس مہينہ کو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنا مہينہ قرار ديا۔چونکہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم تمام انبيا سے افضل ہيں اس ليے رب قدير نے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے مہينہ کو بھی افضل بنا ديااس ماہ کو کريم الطرفين بھی کہا جاتاہے۔کيونکہ اس سے پہلے بھی رجب شريف کامقدس مہينہ ہے اور بعد ميں بھی رمضان المبارک کا با برکت
ماہ جس ميں اللہ کی بے بہا رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔۔۔۔۔"

شب برات کے فضائل ميں شيخ عبد الحق رحمتہ اللہ محدث دہلوی نے اپنی مشہور و معروف تصنيف "ما ثبت با الستہ " ميں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ايک روايت نقل کی ۔
وجہ تسميہ
اس مہينہ کا نام شعبان اس لئے رکھا گيا کہ روزہ دار (نفلی روزہ رکھنے والا) کی نيکيوں کے ثواب ميں درخت کی شا خوں کی طرح اضا فہ ہوتا ہے۔يعنی جو شخص اس مقدس ماہ ميں نفلی روزے رکھتا ہے۔اللہ تعالٰی اسے اجر عظيم عطا فر ما تاہے۔لفظ شعبان پر غوث صمدانی،محبوب لامکانی،پير پيراں ميرمياں شيخ عبدالقادرجيلا نی رحمتہ اللہ نے"غنيتہ الطاليبن
" میں بڑی پياری بحث کی۔

آپ فر ماتے ہيں:۔
شعبان خمس احرف شين وعين وبا والف و نون قا لشين من الشرف و العين من العلو والبا من البر والا لف من الا لفتہ والنون من النور فھذہ العطا يا من اللہ تعالٰی للعبد فی ھذہ الشھرة
"شعبان کے پانچ حروف ہيں۔ش،ع،ب،ا،ن۔پس ش شرف سے ہے ۔ع علو سے،ب بر سے،الف الفت سےاور نون نور سے۔ پس يہ عطا ہے بندے کے لئے اللہ کی طرف سے اس ماہ ميں ۔"

يعنی شعبان کا مہينہ جب آتا ہے تو اپنے ساتھ شرافت،بلندی،نيکی،محبت اور اللہ کا نور لے کر آتا ہے۔اگر کوئی شخص خلوص نيت سے اپنے گناہوں سے تا ئب ہو کر اللہ کاقرب حاصل کرنا چاہے تو اس ماہ کی فضيلت کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کے گنا ہوں کو معاف فرما کر روحاني طور پر اس کے د رجات بلند فر مائے گا۔صرف يہی نہيں بلکہ اسے اللہ کے نور کي وہ
دولت ميسر آتی ہے جواصل ميں فقراکی روحاني غذا ہے۔

شعبان عبادت کا مہينہ
حضرت غوث الا عظم رحمتہ اللہ اس ماہ کی فضليت بيان کرتے ہوئے مزيد فرماتے ہيں کہ يہ ايک ايسا مہينہ ہے کہ اللہ تعالٰی رحمت کے تمام دروازے کھول ديتا ہے۔گناہ گاروں کے گناہ معاف کئے جاتے ہيں اور بديوں کا کفارہ ادا کيا جا تا ہے۔اس لئے اس مقدس ماہ ميں حضورعلی الصلوةوالسلام پر کثرت سے درود شريف پڑھنا چا ہيے۔کيونکہ زمانہ تين قسم کا ہوتا ہے۔ماضی،حال،مستقبل۔ماضی عبرت کا زمانہ ہوتا ہے اور حال عمل کا اور آنے والا زمانہ اميد کا دن ہوتا ہے۔لہذامسلمانوں کو ان تينوں مہينوں رجب،شعبان،رمضان کا خاص خيال رکھنا چاہيےاور شعبان کے مہينے ميں عبادت بہت زيادہ کرنی چاہيے۔کيونکہ رجب گزر چکا ہوتا ہے اور رمضان کے بارے ميں يہ نہيں کہا جا سکتا کہ تم اس ميں زندہ رہو گے۔يا قادر مطلق سے جا ملو گے ۔ اس لئے اس مہينہ کو غنيمت جان کراس ميں خوب گڑگڑا کر رب قد ير سے
اپنے گناہوں کی معا فی مانگنی چاہيے۔

شعبان ميں روزے رکھنا
يہ ايک ايسا ماہ ہے جس ميں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر روزے رکھا کرتے تھے

حضرت عائشہ صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ فر ماتی ہيں
کان يصوم شعبان کلہ وکان يصوم شعبان الا قليلا (مشکوة شريف)
يعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان ميں يا تو سارا ماہ ہی روزے رکھتے تھے يا زيادہ رکھتے اور کم چھوڑ ديتے تھے۔ايک اور حديث شريف ميں آيا ہے۔حضرت ام سلمہ رضی
اللہ تعا لی عنہ فرما تی ہيں:۔

مارا يت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شھرين متابعين الا شعبان و رمضان (مشکوة شريف١٧٤)" شعبان اور رمضان کے علاوہ ميں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پے در
پے روزے رکھتے ہوئے نہيں ديکھا"

يعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان ميں پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہيں ديکھا" پے د ر پے ر و ز ے رکھتے ہو ئے يہا ں تک کہ حضرت عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ
فر ما تی ہيں کہ ميں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کيا۔يارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم !ميں آپ کو ا کثر شعبان ميں روزہ دار پاتی ہوں۔تو آپ نے فرما يا عا ئشہ
صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ
انہ شھر ينسخ الملک الموت فيہ اسم من يغيض روحہ فی بقيتہ العام فانا احب ان لا ينسخ
اسمی الا واناصائم
يہ ايک ايسا مہينہ ہے کہ ملک الموت کے لئے لکھا جا تا ہے اس شخص کا نام جس کی روح باقی سال ميں قبض ہونا ہوتی ہے۔پس ميں پسند کر تا ہوں جب ميرا نام لکھا جائے تو ميں روزہ دار ہوں۔
حاصل مدعا يہ ہے کہ اس ماہ ميں لو گوں کو موت و حيات کے فيصلے ہو تے ہيں۔اس لئے يہ
باعث عبرت ہے اس ميں خوب خدا کو يا د کر نا چا ہيے جہاں تک شعبان کے روزوں کا تعلق ہے تو ہمارے لئے بہتر ہے کہ اس ماہ کے پہلے پندرہ دنوں ميں روزے رکھ کيا کريں اور آخری
پندرہ دن افطار ميں گزاريں۔کيو نکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا
اذا نتصف شعبان فلا تصوم (مشکوة شريف)

جب نصف شعبان گزر جائے تو روزے نہ رکھو۔۔۔۔۔
اگر چہ لگاتار روزے رکھنے ميں کو ئی حرج نہيں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول صرف اس وجہ سے ہے کہ کہيں مسلمان شعبان ميں لگا تار روزے رکھ کراتنے کمزور نہ پڑجا ئيں کہ ر مضا ن کے فرض روزے ان سے رہ جا ئيں ہاں ! اتنی بات ضرور ہے کہ رمضان سے دو چار
دن قبل روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔بعض بزرگوںکے نزديک تو شعبان کے پورے روزے رکھنے ميں کراہت ہے۔کيو نکہ رمضان سے مشا بہت ہوتی ہے۔بہر حال شعبان شريف ميں روزے رکھنے کی بہت فضيلت ہے۔اس لئے مسلمانوں کو چاہيے کہ شعبان ميں روزے رکھيں تا کہ ان کی
نيکياں زيادہ ہو سکيں۔اور بديوں کا کفارہ بن جائے۔

نسائی کی ايک اور حديث شريف ہے ۔کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ شعبان ايک ايسا مہينہ ہے کہ اس ميں اللہ کے حضور لوگوں کے اعمال پيش کئے جا تے ہيں۔اس لئے
ميں چاہتا ہوں کہ جب ميرے اعمال پيش کئے جائيں تو ميں روزہ دار ہوں۔
احا ديث مختلفہ سے شعبان کی جو خصو صيات ملتی ہيں انہيں نمبر وار لکھا جا تا ہے:۔

١۔ شعبان عمل کا مہينہ ہے
٢۔ شعبان محبت کا مہينہ ہے
٣۔ شعبان خدمت کا مہينہ ہے
٤۔ شعبان کوشش کا مہينہ ہے
٥۔ شعبان بدی کو دور کرنے والا مہينہ ہے
٦۔ اس ميں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پيش کيے جاتے ہيں۔
٧۔ شعبات عبادت کر نے کا مہينہ ہے
٨۔ لوگوں کی روزی کا حساب ہوتا ہے
٩۔ موت و حيات کے فيصلے ہوتے ہيں

ذوالنون مصری نے فر مايارجب کھيتی کا مہينہ ہے اور شعبان اس کو پا نی پلا نے کا۔بعضوں نے کہا کہ سال ايک درخت ہے۔اور رجب اس کے پتے ہيں اور شعبان کے دن اس کا پھل ہيں اور رمضان اس کا ميوہ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے کہ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہلال شعبان ديکھتے تو قرآن شريف کو پڑھنا لازم کر ليتے تھے۔

ان احا ديث سے شعبان کی فضيلت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔شعبان کي فضيلت پر اور بھی بے شمار حديثيں ملتی ہيں۔ليکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔اور شب برات جو اس ماہ کے نصف ميں آتی ہے ۔اس کے فضائل بيان کرنے کی سعی کر نے لگا ہوں۔

يوں تو اللہ تعالٰی نے ہر رات ميں ايک ايسی سا عت رکھی ہے جس ميں وہ پکا رتا ہے کہ ہے کو ئی بخشوانے والا؟ہے کوئی ميری طرف رجوع کرنے والا کہ ميں اس کے گناہ معاف کروں؟

اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا کہ رات کے تيسرے حصہ ميں تم ان لوگوں ميں سے ہو جاؤ۔جو اللہ کا ذکر کرتے ہيں۔کيونکہ يہ وقت اللہ سے نہايت قر بت کا ہوتا ہے۔ليکن سال ميں کچھ ايسی راتيں بھی ہيں ۔ جن ميں رحمت خداوندی کا نزول بہت زيادہ

ہوتا ہے ان راتوں کی تعداد چار بتا ئی گئی ہے۔
١۔ عيد الا ضحٰی کی شب
٢۔ عيد الفطر کی شب
٣۔ شعبان کی پندرھويں شب
٤۔ عرفہ کی شب
اس کے علاوہ يہ رايتں بھی بڑي اہميت کی حامل ہيں۔جمعہ کی شب اور ليلتہ القدر يعنی
رمضان کے آخري عشرہ کی ايک شب جس کو مختلف طريقوں سے روايت کيا گيا۔حاصل
کلام يہ ہے کہ شعبان کی پندرھويں شب بڑي ہی اہميت کی حامل ہے۔اس رات کے مندرجہ
ذيل نام بيان کئے جاتے ہيں
١۔ ليلتہ البراة
يعنی دوزخ سے بري کر دينے والی رات۔غوث الاعظم رحمتہ اللہ نےفرمايا اسے اس لئے ليلتہ البراة کہا جاتا ہے کہ اس ميں دو براتيں ہيں۔ايک بدبختوں کے لئے اور ايک خدا کے دوستوں
کے لئے
٢۔ ليلتہ المبارکہ

برکت والی رات۔يعنی اس ميں اللہ تعالٰی کی بے بہا رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
حضرت عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فر ماتی ہيں
ايک رات ميں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پايا۔تلاش کے لئے نکلی تو آپ بقيع(قبرستان مدينہ)ميں تھے۔جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ديکھا تو فرمايا۔کيا تجھے ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھ پر زيادتی کرے گا۔عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتی ہيں۔ميں نے کہا يارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ميں نے گمان کيا کہ شايد آپ ازواج مطہرات ميں سے کسی کے پاس تشريف لے گئے ہيں تب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا کہ مجھے جبرائيل عليہ السلام نے خبر دی تھی۔کہ آج شعبان کی پندرھويں ہے۔اس رات رب کائنات اتنے گناہ گاروں کوجہنم سے نجات ديتا ہے جتنے قبيلہ کلب کے بکريوں کے بال ہيں۔(مفہوم حديث)اس رات سال ميں تمام پيدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھ ديئے جاتے ہيں۔اعمال کے اٹھانے کا دن بھی يہی ہے۔اس لئے اے دوست سستی اور کاہلی سے کام نہ لينا يہ بھی ہوسکتا ہے کہ تيرا نام اس سال کے مرنے والوں ميں ہو۔توبہ کا کوئی وقت ہاتھ سے نہيں کھونا چاہيے۔يہ رات تو وہ رات ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہيں کہ" جب يہ رات آتی ہے تو ايک منادی ندا کرتا ہے کہ ہے کوئی بخشش کا طلب گار؟ہے کوئی سوال کرنے والا؟کہ ميں اس کا
سوال پورا کروں"

بعض علماءنے لکھا ہے کہ قرآن مجيد کی سورہ دخان کی اس آيہ کريمہ
فيھا يفرق کل امر کيم امرامن عندنا
ميں بھی شب برات ہی کا تذکرہ ہے
رات کا قيام دن کا روزہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا۔شعبان کی پند رھويں تاريخ کورات کو قيام کرو،اور دن کو روزہ رکھو(ابن مسلم)
جو شخص پندرھويں کوروزہ رکھتا ہے آسمان سے ايک فر شتہ اسے پکارتا ہے۔اے فلاں تجھے مبارک ہو خدا نے تيرے تمام گناہ معاف کر دئيےہيں(مقصودالقا صدين)
شعبان ميں پڑھی جانے والی نفلی نمازيں اور ان کا ثواب
جس شخص نے شعبان کی پہلی رات کو بارہ رکعتيں اس طرح ادا کيں کہ ہر رکعت ميں فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اس کے لئے بارہ سالوں کا ثواب لکھ ديا جاتا ہے اور پيدائش کے دن کی طرح سا رے گناہوں سے پاک ہو جاتاہے۔جس نے شعبان کےآخری جمعہ کی
رات کو دورکعتيں اس طرح پڑھيں کہ ہر مرتبہ سورہ فاتحہ کے بعد تيس بار سورہ اخلاص پڑھی۔حج اکبر کا ثواب لکھ ديا جاتا ہے اور ايک روايت ميں ہے کہ جس نے شعبان کے آخری جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کےدرميان دورکعت پڑھيں ہر رکعت ميں فاتحہ کے بعد آيتہ
الکرسی سورہ کافرون اوردس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اگر اسی سال مر گيا تو شہيدمرے گا
شعبان کی پندرھويں تاريخ کی نماز
من صلی فی يوم الخامس العشر ثلثين رکعات يقرء فی کل رکعتہ بعدالفاتحہ الاالاخلاص سبع
مراة کتب اللہ لہ اجرالف شھيد والف غازی والف عنق رقبہ (مقصود القاصدين ص٢٤)
جس شخص نے پندرھويں کو تيس رکعات اس حالت ميں پڑھيں کہ ہر مر تبہ سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اللہ تعالٰی اس کے لئے ہزار شہيد،ہزار غازی اور ہزار غلام
آزاد کر دينے کا ثواب لکھ ديتا ہے۔

پندرھويں رات کو قبرستان جانا
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی يہ عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کی پندرھويں تا ريخ ہوتی تورات کوقبرستان تشريف لےجاتے۔جيسا کہ حضرت عا ئشہ
صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روايت سے ثابت ہے اس شب کو ہميں بھی اپنے قريبی قبرستان ميں جا کے اپنے گناہوں کی معافی اور مدفون بھائيوں کی مغفرت کی دعا کرنی چاہيے۔اس لئے کہ ايک تو ايسا کرنے سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت شريفہ پر عمل ہوتا ہے۔دوسرا مومن کی دعا سے رب کا ئنات ان قبروں والوں کو جو عذاب ميں مبتلا ہوتے ہيں معاف فر ما د يتے ہيں ۔ نيکوں کے درجات کو بھی بلند فرما تا ہے اور ايسا کرنے والے بھی اجر
عظيم کے مستحق ہوتے ہيں۔
جہاں تک ايصال ثواب کا تعلق ہے علماء کی اکثريت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مردے کو مرنے کے بعد بھی زندوں کی طرف سے ثواب پہنچتا رہتاہے۔جيسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کے تمام اعمال کا ثواب ختم ہو جاتا ہے مگر تين نيکيوں کاثواب مرنےکےبعدبھی ملتا رہتاہے۔صدقہ جاريہ،علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائيں،نيک
اولاد جو والدين کے حق ميں دعا کرتی ہو۔
"شرح الصدور" ميں علامہ سيوطی نے نقل کيا ہے کہ حضرت مالک بن دينار رضی اللہ تعالٰی عنہ فر ماتے ہيں کہ ميں جمعہ کی رات قبرستان گياميں نے ديکھاکہ وہاں نور چمک رہا ہے۔ذہن ميں خيال پيدا ہوا کہ شا يد اللہ نے قبرستان والوں کو بخش ديا ہے۔غيب سے آواز آتی ہے۔"اے مالک!يہ مسلمانوں کا تحفہ ہے۔جو انہوں نے اہل قبور کو بھيجا ہے"ميں نے پوچھا "مسلمانوں نے کيا تحفہ بھيجا ہے؟"آواز آئی!"ايک مرد مومن نے اس رات ميں اس قبرستان ميں قيام کيا اور دو رکعت نماز پڑھی۔اس طرح کہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھی اور کہا کہ اے اللہ!اس کا ثواب ميں نے مومن اہل قبور کو بخشا۔اسکی وجہ سے اللہ تعالٰی نے يہ روشنی
اور نور بھيجا اورہماری قبروں ميں مشرق و مغرب کی وسعت پيداکر دی۔
مالک کہتے ہيں کہ اس کے بعد ہميشہ ميں جمعرات کو دونفل پڑھ کے اس کا ثواب مومنين کو بخشتا۔

ايصال ثواب پر فقہ کی مشہورومعروف کتاب ميں صاحب ہدايہ نے يوں تصريح کی ہے
ان الا نسان لہ ان يجعل ثواب عملہ لغيرہ صلوةاوصومااو غيرھا عند اھل السنتہ والجماعتہ
اہل سنت والجماعت کے نزديک انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے شخص کوپہنچا سکتا ہے ۔ ۔ خواہ نماز ہو خواہ روزہ ۔

ايصال ثواب کے سلسلے ميں بے شمار احاديث سند کے طور پر پيش کی جا سکتی ہيں۔ليکن طوالت کےخوف سے امام نودی ہی ايک اقتباس نقل کرتے ہيں "امام نودی نے مسلم شريف کی شرح ميں لکھا ہے کہ صدقہ کا ثواب ميت کو پہنچنےميں مسلمانوں ميں کوئی اختلاف نہيں ہے۔يہی مذہب حق ہے۔اوربعض لوگوں نے جو يہ لکھ ديا کہ ميت کو اس کے مرنے کے بعد ثواب نہيں پہنچتايہ قطعاًباطل ہے۔اور کھلی ہوئی خطاہےاس لئے ہر گز يہ قول قابل التفات
نہيں"
اس قول سے ثابت ہوگيا کہ ميت کو ہر نيک کام کا ثواب پہنچايا جا سکتاہے۔
اس رات ميں ديگر مفيد عبادتيں
صلوة التسبيح کا اہتمام کرنا:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس نماز کی تعليم ديتےہوئےفر ماياکہ"اے چچا!اس نماز کے پڑھنے سےخداتيرےاگلےپچھلے،نئے پرانے،
دانستہ نا دانستہ،چھوٹے بڑے،ظا ہر پوشيدہ سب گناہ بخش دے گا"
ترکيب
نيت باندھ کر ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ پڑھے،

سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا للہ واللہ اکبر۔پھر فاتحہ کے بعد سورہ ملانے کے بعد دس مرتبہ،رکوع دس مرتبہ،قومہ ميں دس مرتبہ،سجدہ ميں دس مرتبہ،جلسہ ميں دس مرتبہ پھر دوسرے سجدہ ميں دس مرتبہ پڑھے۔ہر رکعت اسی طرح ادا کرنی ہے۔نماز کی رکعتيں چارہيں۔

اس نماز کے پڑھنے سےخدا تعالٰی ہر قسم کے گناہ معاف فر ما ديتا ہے۔
٢۔ درود شريف کی کثرت بر تنی چاہيے۔

٣۔ ذکرکی محفليں منعقد کی جائيں۔اسلئے کہ حضرت کعب الاخباررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرماياکہ اس رات ميں جو شخص تين مرتبہ لا الہ الاللہ پڑھے تو اللہ تعالٰی پہلی مرتبہ اس کے گناہوں کو مٹا ديتے ہيں۔دوسری مرتبہ جہنم سے آزاد کرتے ہيں۔اور تيسری مرتبہ پڑھنے سے وہ جنت کا مستحق ہوجاتا ہے۔

مجلس ذ کر
ايک روايت ہے کہ فر شتے ذاکرين کی محفل کو تلاش کرتے رہتے ہيں۔جب انہيں کوئی ايسی محفل نظر آتی ہے ۔جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو۔توان کے سا تھ بيٹھ جاتے ہيں اور اپنے پروں سے ايک دوسرے کا حلقہ کر ليتے ہيں۔يہاں تک کہ آسمان دنيا اور ذاکرين کے درميان خلابھرجاتا ہے۔جب مجلس ذکر ختم ہوتی ہے تو فرشتےآسمان پر پہنچ جاتے ہيں پھر اللہ تعالٰی
ان فرشتوں سے پوچھتا ہے۔
"تم کہاں سے آئے ہو؟"
وہ کہتے ہيں
"ہم تيرے بندوں کے پاس سے آئے ہيں۔جو زمين پر تيری تسبيح و تہليل کرتے ہيں،تيری تکبر پڑھتے ہيں،تيری بزرگی بيان کرتے ہيں اور تجھ سے مانگتے ہيں"
اللہ تعالٰی فر ما تا ہے،
"کيا مانگتے ہيں؟"
فر شتے جواب ميں عرض کرتے ہيں،
"تجھ سے تيری جنت ما نگتے ہيں،
خدا فرماتا ہے
"کيا انہوں نے ميری جنت ديکھی ہے؟"
فر شتے کہتے ہيں
"اے رب ہمارے !نہيں ديکھی ہے"
خدا فرماتاہے
"اگر وہ ميری جنت ديکھ ليں توان کی طلب کا کياحال ہو"
اسی طرح دوزخ کے بارے ميں سوال و جواب ہونے کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا۔
اللہ تعالٰی فرماتاہے اے فرشتو!گواہ رہنا ميں نے ان کی بخشش فرما دی۔جو چيز وہ مانگتے ہيں ميں نے دے دی اور جس چيز سے پناہ مانگتے ہيں ميں نے پناہ دے دی۔
پھر فر شتے کہتے ہيں،
"اے رب!فلاں آدمی تويوں ہی کسی غرض سے آيا تھا۔ان ميں بيٹھ گيا"
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہيں۔اللہ تعالٰی کہتا ہے۔"ميں نے اسکو بھی بخش ديا ہے کيونکہ ذاکرين ايسی قوم ہيں جن کے پاس بيٹھنے والا محروم نہيں ہوتا"(مشکوة شريف)
ذکر صيقل دل
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا
"ہر چيز کی صفائی ہے اور دل کی صفائی اللہ کا ذکر ہے"(مشکوة شريف)
معمولات
١۔ قرآن مجيد کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہيے
٢۔ نماز تہجد پڑھنی چاہيے
٣۔ بزرگوں کے بتلائے ہوئے معمولات کا اہتمام کر نا چاہيے
٤۔ درود و سلام ذوق و شوق سے پڑھنا چاہيے
٥۔ اجتماعی عبادات کے علاوہ انفرادی طور پر بھی اللہ کے حضور جھک کر اپنے گناہوں کی معافی ما نگنی چا ہيے
٦۔ ديگر معاملات کے حل کی دعا بھی کرني چاہيے
طوالت کے خوف سے وہ دعا ئيں نہيں نقل کی جا رہيں جواس رات نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمايا کرتے تھے۔
قا رئين کرام!
شعبان کے فضا ئل کے سلسلے ميں اسلاف کے بہت سے اقوال ملتے ہيں ليکن خيال ہے کہ جب سارے اسلامی سال کے فضا ئل مرتب کئے جائيں اس وقت اس مختصر سے مجموعہ کے سا تھ وہ قيمتی باتيں بھی شامل کر دی جائيں۔
ربنا تقبل منا انک انت السميع العليم بحرمت سيدالنبين صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~
            


Saturday, July 2, 2011

شعبان المعظم کے نوافل


شعبان المعظم کے نوافل

آفات و بلیات و محتاجی سے نجات:

نماز مغرب کے بعد ٦ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سوۃ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھنے کے نتیجے میں انشاء اللہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔

صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (٤٩٠٠) حاجتیں پوری ہوتی ہیں:

حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں کہ '' مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔

تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی:

آٹھ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر خلوص دل سے توبہ کریں اور درج ذیل دعا کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور سجدے میں ٤٤ مرتبہ پڑھیں ۔ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے کہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ

رزق میں برکت اورکاروبار کی ترقی کیلئے:

دورکعت نماز ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ ، سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں۔ سلام کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر تین سو تیرہ مرتبہ یَاوَہَّابُ یَا بَاسِطُ یَارَزَّاقُ یَا مَنَّانُ یَا لَطِیْفُ یَا غَنِیُّ یَا مُغْنِیُّ یَا عَزِیْزُ یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ کا وظیفہ پڑھنے سے کاروبار میں برکت اور رزق میں وسعت ہوجاتی ہے۔

موت کی سختی آسان اور عذابِ قبر سے حفاظت:

چار رکعت پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر ایک مرتبہ اور اخلاص تین دفعہ پڑھ کر سلام کے بعد سورۃ ملک اکیس مرتبہ اور سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں اکیس دفعہ پڑھنے سے انشاء اللہ والرسول صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختیوں اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

صلوۃ التسبیح:

حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا ، نیا ، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو ، بڑا ہو ، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔ طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ پندرہ بار پھر تعوذ ، تسمیہ ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(٧٥) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (٣٠٠) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (٢٥) بار اور رکوع و سجود میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔

روز محشر اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی نظر کرم:

اس نعمت کے وہ مستحق ہوں گے جو پندرہ شعبان کا روزہ رکھیں اور بعد نماز ظہر چار رکعت دو دو کر کے اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسورۃزلزال ایک بار،سورۃ اخلاص دس بار، دوسری رکعت میں سورۃ تکاثر ایک بار، سورۃاخلاص دس بار، دوسری نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون تین دفعہ ،سورۃ اخلاص دس بار اور آخری رکعت میں آیت الکرسی تین دفعہ، سورۃ اخلاص پچیس بار، جو یہ عمل کریں گے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرف نظر کرم فرمائے گا۔

نوٹ: یاد رکھیں نوافل سے پہلے فرض نمازوں کی قضا کی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔

دعائے نصف شعبان المعظم

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَللّٰہُمَّ یَا ذَ الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط یَا ذَاالطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ فلَاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَہْرُ اللَّاجِئِیْنَ ط وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ ط وَاَمَانُ الْخََآئِفِیْنَ ط اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِۤی اُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقَتَّرًاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِ ط فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَا وَتِیْ وَحِرْ مَا نِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَرِزْقِیْ ط وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیۤ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا امَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرَاتِ ط فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ ط عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ ط یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہ، اُمُّ الْکِتٰبِ o اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّیِّ الْاَعْظَمِ ط فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ ط اَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرَمُ ط اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَ آءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَمُ ط وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ o

فاتحہ اور حلوہ کھانے اور کھلانے کے فائدے:

١٤ شعبان کو گھر میں خواتین (باوضو ہوں تو بہتر ہے) حلوہ پکائیں اور آقائے دوجہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہما کی خصوصیت کے ساتھ نیز دیگر صالحین ، اولیائے کاملین ، سلاسل تصوف و طریقت کے بزرگان دین، اپنے آباؤ اجداد، اعزاو اقربا (جو حالتِ ایمان پر رحلت کر گئے ہوں) اور عام مومنین کی حلوے پر فاتحہ دلائیں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں، خصوصاً محتاج و مستحقین امداد کو حلوے کے علاوہ کچھ خیرات بھی دیں۔ مشائخ سے منقول ہے یہ ارواح اپنے عزیزوں کی جانب سے فاتحہ و نذور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب کے تحفے وصول کرکے خوش ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے زندہ عزیزوں کے حسنِ خاتمہ و آخرت کے لئے سفارش بھی کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث جلد دوم صفحہ ٨١٧ کے مطابق حلوہ کھانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواتر اور سنتِ عادیہ دونوں پر عمل ہے۔ جبکہ حلوہ کھلانے سے متعلق اللہ کے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فرماتے ہیں'' جس نے اپنے مسلمان بھائی کو میٹھا لقمہ کھلایا اس کو سبحانہ و تعالیٰ حشر کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا،۔ (شرح الصدور، للعلامہ امام سیوطی مجدد قرن نہم)

قبرستان حاضری کے آداب

مرحومین اور عزیزوں کی مغفرت کیلئے: باوضو ہو کر اور تازہ گلاب(یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں، قبروں کے آداب اور خصوصًاقبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے ، ہر قبرستان میں شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے کھمبوں کی تنصیب کرے اور ان ہی کھمبوں پر تیز روشنی کے بلب لگائے جائیں تاکہ پورا قبرستان روشن ہو کیونکہ قبرستان بہت گنجان ہوتا ہے قبروں کے درمیان قطعاً جگہ نہیں ہوتی کہ وہاں موم بتی یا چراغ جلا سکیں لیکن بعض نادان حضرات ایسا کرتے ہیں جو شرعاً منع ہے، خوشبو کے لئے اگر بتی جلا کر قبر سے ایک فٹ دور رکھیں۔ اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں ۔ قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُورِ الْمُسْلِمِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اَنَا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْاَلَ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃِ

پھر درج ذیل درود شریف ایک مرتبہ پڑھنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مُردوں پر سے ستر سال کے لئے اور چار دفعہ پڑھنے پر قیامت تک کا عذاب اٹھا لیتا ہے ۔ چوبیس مرتبہ پڑھنے والے کے والدین کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے والدین کی قیامت تک زیارت کرتے رہو۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط

اَلّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الصَّلٰوۃِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الرَّحْمَۃِ
وَصَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍا فِی الْارْوَاحِ
وَصَلِّ عَلٰی صُوْرَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الصُّوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَسْمَائِ
وَصَلِّ عَلٰی نَفْسِ مُحَمَّدٍا فِی النُّفُوْسِ
وَصَلِّ عَلٰی قَلْبِ مُحَمَّدٍا فِی الْقُلُوْبِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی القُبُوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی رَوْضَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الرِّیَاضِ
وَصَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَجْسَادِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی التُّرَابِ
وَصَلِّ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ وَ ذُرِّیَّتِہ وَ اَہْلِ بَیْتِہ
وَاَحْبَابِہ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ


عشرہ مبشرہ


عشرہ مبشرہ

یوں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سے صحابیوں کو مختلف اوقات میں جنت کی بشارت دی اور دنیا ہی میں ان کے جنتی ہونے کا اعلان فرمادیا مگر دس ایسے جلیل القدر اور خوش نصیب صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھڑے ہوکر ایک ساتھ ان کا نام لیکر جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی ، تاریخ میں ان خوش نصیبوں کا لقب عشرہ مبشرہ ہے جن کی مبارک فہرست یہ ہے
1۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
2۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
4۔حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ
5۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
6۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ
7۔حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ
8۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
9۔حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
10۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراح‌رضی اللہ عنہ
(ترمذی جلد دوئم ، مناقب عبدالرحمان بن عوف

The List of Ashra Mubashra (The ten heaven Bound) is..

(1) HAZRAT ABU BAKAR SIDIQ ( رضی اللہ عنہ)
(2) HAZRAT UMAR FAROOQ ( رضی اللہ عنہ)
(3) HAZRAT USMAN-E-GHANI ( رضی اللہ عنہ)
(4) HAZRAT ALI MURTAZA ( رضی اللہ عنہ)
(5) HAZRAT TALHA BIN ABEID ULLAH ( رضی اللہ عنہ)
(6) HAZRAT ZUBAIR BIN ALAWAM ( رضی اللہ عنہ)
(7) HAZRAT ABDUR REHMAN BIN AOF ( رضی اللہ عنہ)
(8 ) HAZRAT SAAD BIN ABI WAQAS ( رضی اللہ عنہ)
(9) HAZRAT SAEED BIN ZAID ( رضی اللہ عنہ)
(10) HAZRAT AB UBAIDA BIN ALJARAH ( رضی اللہ عنہ)

(TIRMAZI: JILD 2 ABDUR REHMAN BIN AOF)

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~