Tuesday, June 28, 2011

ذکرِمعراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم از قلم شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ


ذکرِمعراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
از قلم
شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ
اخصِ خصائص ،اشرف فضائل و کمالات، ابہرمعجزات و کرامات میں سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسریٰ ومعراج کے ساتھ مخصوص و مشرف فرماناہے۔کیونکہ کسی نبی یا رسول کو اس سے مشرف ومکرم نہ کیا گیا اور جس مقامِ عُلیا تک آپ کی رسائی ہوئی اور جو کچھ وہاں دکھایا گیا کوئی ہستی کبھی وہاں نہ پہنچی ہے اور نہ دیکھاہے،فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَیٰ بِعَبْدِہ لَیْلاَمِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الٰی الْمَسْجِدِالْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیْہَ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرo
(پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ خاص کو رات کے تھوڑے عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک لے گیا۔ وہ جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھیں تا کہ دکھائیں ہم انہیں اپنی نشانیاں بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے)
اسریٰ کے معنی ہیں لے جانا،مطلب یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ مکرمہ سے مسجدِ اقصٰی تک لے جایا گیا، اس کا منکر کافر ہے کیونکہ یہ اللہ جل شانہ کی کتاب سے ثابت ہے۔پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جانے کا نام معراج ہے۔یہ احادیثِ مشہورہ سے ثابت ہے۔اس کا منکر مبتدع،فاسق ومخذول ہے۔دیگر جزئیات اور عجیب و غریب احوال کا ثبوت حدیثوں سے ہے۔اس کا منکر جاہل و محروم ہے۔مذہب صحیح یہی ہے کہ وجودِ اسریٰ ومعراج سب کچھ بحالتِ بیداری اور جسم کے ساتھ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ الاجمعین، تابعین اورا تباع کے مشاہیرعلماء اور ان کے بعدمحدثین ،فقہا اور متکلمین کا مذہب اسی پر ہے اس پر احادیث صحیحہ اور اخبارِ صریحہ متواتر ہیں۔
بعض اس پر ہیں کہ معراج خواب میں روح سے تھی اس کی جمع و تطبیق اس طرح کی ہے کہ یہ واقعہ متعدد مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ حالتِ بیداری میں اور دیگر اوقات خواب میں روح سے۔کچھ مرتبہ مکہ مکرمہ میں اور کچھ مرتبہ مدینہ طیبہ میں،اس کے باوجود اس پر سب کا اتفاق ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی رویا یعنی خواب وحی ہے،جس میں کسی شک و شبہہ کو دخل نہیں اور خواب میں ان کے دل بیدار ہیں اور ان کی آنکھیں پوشیدہ اس طرح پرکہ جیسے حضور مراقبہ کے وقت آنکھیں ہوتی ہیں تاکہ محسوسات میں سے کوئی چیز مشغول نہ کردے۔قاضی ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ اس کا وقوع خواب میں توطیئہ و تیسیر یعنی سمجھانے اور آسان کرنے کیلئے تھا۔
جیساکہ ابتداء نبوت میں رویائے صادقہ دیکھا کرتے تھے تاکہ وحی کابوجھ جو ایک امرِ عظیم ہے اس کی برداشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہل اور آسان ہوجائے۔چنانچہ قوائے بشریہ اس کی برداشت میں کمزور اور عاجز ہیں۔ایسے ہی معراج پہلے خواب میں واقع ہوئی تاکہ بیداری میں اسے پانے کی قوت و استعداد حاصل ہوجائے بلکہ اس کے قائلین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ خواب میں اس کا وقوع بعثت سے پہلے تھا۔(واللہ اعلم )
بعض عارفین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسرات اور معاریج بہت تھیں اور بعض نے چونتیس کہا ہے جن میں سے ایک تو بچشمِ سر بیداری سے تھی باقی خواب میں روحانی تھی (واللہ اعلم)ایک گروہ یہ کہتا کہ اسریٰ مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک جسمانی بیداری میں تھی اور وہاں سے معراج آسمانوں تک خواب میں روحانی تھی اور وہ اسی آیتِ کریمہ سے دلیل لیتے ہیں کہ اس میں مسجد اقصیٰ کو اسراء کی غایت ٹھہرایا ہے۔اگر اسراءِ جسمانی مسجداقصیٰ سے آگے ہوتی تو ذکر فرمایا جاتا۔ یہ ذکر فرمانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی و مدح میں اور حق تبارک وتعالیٰ کی قدرت کی تعظیم وتعجب میں زیادہ بلیغ تھا۔اس کا جواب یہ کہ آیتِ کریمہ میں مسجد اقصیٰ کے ذکر کی تخصیص، وقوع خلاف و نزاع اور اس میں قریش کے انکار کی بناء پر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منکرین قریش کااس کی علامتوں اور نشانیوں کو دریافت کرنے کی وجہ سے اس کا ذکر ہے اور ان کا بغرض امتحان مسجدِاقصیٰ کی صفتوں اور نشانیوں کے بارے میں باتیں معلوم کرنے کی بناء پر خصوصیت سے ذکر ہے۔جیسا کہ آگے تذکرہ آئے گا۔ اس کے بارے میں احادیث مشہور اور اخبارصحیح بکثرت وارد ہیں بلکہ آیاتِ قرآنیہ بھی ہیں۔چنانچہ سورۂ ”والنجم“میں واقعہ ہے۔ اگر چہ سورۂ والنجم میں جو کچھ واقع ہوا ہے اسے سیّدنا جبریل علیہ السلام کی رویت اور ان کے نزدیک ہونے پر کچھ حضرات محمول کرتے ہیں لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ قصّہ معراج پر محمول ہے۔
بندۂ مسکین (شیخِ محقق رحمہ اللہ) ثبۃاللہ فی مقام الصدق والیقین کہتا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا یہ اشارہ کہ لِنَرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا تاکہ ہم دکھائیں انہیں اپنی نشانیاں معراج کے ساتھ ہے۔مطلب یہ کہ مسجدِ اقصیٰ لے جایا گیایہاں تک کہ وہاں سے آسمانوں پر لے جا کر نشانیوں کو دکھایاگیا۔اس لئے کہ نشانیوں کا دکھانا اور غایت کرامات و معجزات کا ظاہر فرمانا آسمانوں میں تھااور مسجداقصیٰ میں جو واقع ہواہے اس پر انحصار نہ تھا۔مسجد اقصیٰ لے جانا وہ اس معراج کا مبداء ہے اسی بناء پر مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا اور واقعہ اگر خواب میں ہوتا تو کفّار اسے مستبعدنہ جانتے اور ضعفاء مومنین فتنہ میں نہ پڑتے نیزخواب میں واقعات و قضایا کے وقوع پذیر ہونے کو خارج میں حصرواحصاء، غیر متعارف ہے۔نیز صیغہ ”اسریٰ“کا اطلاق خواب پر نہیں کرتے اور جب اسریٰ بیداری میں ہوا تو معراج جو اس کے بعدواقع ہوا بیداری میں ہوگااور اس کے بعد خواب میں ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔جو لوگ وقوعِ معراج کو خواب میں ہونے کے قائل ہیں ان کے شبہات کے موجب چند چیزیں ہیں ۔ ایک تو حق تعالیٰ شانہ کا یہ قول ہے کہ:
وَماَجَعَلْنَاالرُّؤْیَااَلَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّافِتْنَۃًلِّلنَّاس۔
(نہیں بنایا ہم نے اس خواب کو جو آپ کو دکھایامگر لوگوں کے امتحان کے لیے)
اس آیۂ کریمہ کو بعض مفسّرین قضیہ معراج پر محمول کرتے ہے۔کیونکہ ”رویا“ نیند میں خواب دیکھنے کوکہتے ہیں، اس کاجواب یہ کہ یہ ”رویا“یا توقضیئہ حدیبیہ کے رؤیاپر یا واقعہ بدر کے رؤیا پر محمول ہے اور اہلِ علم رویت بصریٰ کے معنی میں بھی رؤیا استعمال کرتے ہیں اور وہ ”متنّبی“شاعر کے اس قول سے استناد کرتے ہیں کہ
ورؤیاک احلافی للعیون من الغمص
اور بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ چونکہ معراج رات میں واقعہ ہوئی اس بناء پر اس کا نام رؤیارکھا اور یہ جوحدیث میں آیا ہے کہ فاستیقظت (تو میں بیدار ہوگیا)اس میں بھی دلیل ہے کہ اسریٰ و معراج نیند میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ احتمال رکھتاہے کہ یہ اس نیند سے بیداری مراد ہے جوفرشتے کے حاضر ہونے سے پہلے تھی۔ مطلب یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں تھے کہ فرشتے نے حاضر ہو کربیدارکیا اور براق پر سوار کیا اور لے گئے اور اگر بیداری سے مراد قضیہ معراج کے مکمل ہونے کے بعد کی نیند سے ہے جیسا کہ واقع ہوا ۔ثم استیقظت وانافی المسجدالحرام(پھر میں بیدار ہوا میں مسجد حرام میں تھا)تو ممکن ہے کہ استیقظت بمعنی اصبحت یعنی میں نے صبح کی ہے ،یا یہ بیداری اس دوسری نیند سے ہے جو بیت الحرام آنے کے بعد واقع ہوئی ہے اور “اسری” تمام شب کی نہ تھی بلکہ رات کے مختصر حصّے میں تھی۔
بعض محققین کہتے ہیں کہ “استیقاظ”سے مراد افاقہ ہوشیاری اور اس حال سے اپنے حال پر آنا ہے چونکہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملکوت سمٰوات والارض کے عجائب و غرائب کا مطالعہ فرمایا اور ملاء اعلیٰ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیوں اور اسرارنا متناہی کا مشاہدہ کیا آپ کی حالت سخت ہوگئی تھی اور آپ کا باطن، نیند کی حالت کے مشابہ ہوگیا تھا۔اہلِ علم فرماتے ہیں کہ مشاہدۂ ملکوت اگر چہ بیداری میں ہے مگر وہ ایک قسم کی عالمِ محسوسات سے غیبویت ہے اس کو وہ ”بین النوم والیقظ“ یعنی نیند و بیداری کی درمیانی حالت سے تعبیر کرتے ہیں، در حقیقت وہ حا لتِ بیداری میں ہے لیکن غیبت کے عارض ہونے کے سبب اور اس کے زائل ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی اسے نیند سے تعبیرکردیتے ہیں اور ایک روایت میں وانا بین النائم والیقطان(میں سونے اور جاگنے والے کی حالت کے مابین تھا)بھی آیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ نوم سے مراد سونے کی مانند اور کروٹ سے لیٹاہے ۔
اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بین انا نائم فی الحجر وربما قال مضطجع (حجر اسود کے قریب میں سونے کے قریب قریب تھااور بعض نے روایت کیا میں کروٹ سے لیٹا ہوا تھا)باوجود اس کے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس حال کامشاہدہ نہیں کیا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنا۔ کیو نکہ قصّہ معراج ہجرت سے پہلے کا ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بعد ہجرت بار گاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اس وقت بھی وہ سات آٹھ سال کے بچّے تھے جیسا کہ اہلِ علم تصریح کرتے ہیں یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ہے کہ کہا مافقد جسد محمد(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر بستر مبارک سے گم نہ ہوا)یہ ان لوگوں کے دلائل ہیں جو کہتے کہ اسریٰ خواب میں ہوئی۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھیں اور نہ ہی ضبط و حفظ کی عمرمیں تھی بلکہ ممکن ہے کہ پیدا بھی نہ ہوئی ہوں،اس قول کے بموجب جو کہتے ہے کہ اوّل اسلام میں بعثت سے ایک یا ڈیڑھ سال کے بعداسریٰ ہوئی (واللہ اعلم)مقصود یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث اُن دوسری حدیثوں پر راجح نہیں جو بطریق مشاہدہ حدیث روایت کرتے ہیں اور حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں واقع ہوا کہ مافقدجسدمحمد (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر گم نہیں ہوا)اس سے استدلال بلاشبہ خطا ہے اور جو آیا ہے کہ ماکذب الفوادمارای(دل نے نہیں جھٹلایا جو آنکھ نے دیکھا)یہ خواب پر دلالت نہیں کرتا اس لیے کہ مراد یہ ہے کہ دل نے آنکھ کو غیر ِ حقیقت کا وہم نہیں ڈالابلکہ اس کی رویت کی تصدیق کی اور جس چیز کو آنکھ نے دیکھا دل نے اس کا انکار نہ کیا۔بدلیل مازاغ البصرو ما طغی(نہ آنکھ جھپکی نہ بے راہ ہوئی)اب رہا فلسفیوں کے اباطیل و مزخرفات سے تمسک واستدلال کرنا کہ “طبعی طورپر جسم ثقیل بلندی کی جانب نہیں جاسکتا اور آسمان میں خرق و التیام(پھٹنااور ملنا) جائز نہیں”وغیرہ،یہ باتیں طریقہ اسلام میں باطل ولغو ہیں۔
ایک جماعت اہل اشارات و تاویلات کی صورت کو معانی پر محمول کرتی ہے یہ معراج کو روحانی تصور کرتی ہے۔ان کے اس قیام پر کہ حشر کو روحانی کہتے ہیں اس معنی میں نہیں کہ روح کو خواب میں معراج ہوئی بلکہ اس معنی میں کہ معراج،ترقی کے مقامات پر احوال اور عروج و کمال کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ وہ جبریل علیہ السلام روحِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور براق سے آپ کا نفس مبارک جو روح کی سواری ہے،جو اپنی خاصیت میں سر کش ہے اور رام نہیں ہوتا مگرروحانی قوت سے اور آسمان سے مراد مقام قرب اور سدرۃالمنتہیٰ سے انتہائی مقامات ہیں، ان کے اسی قیاس کے مطابق یہ فرقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّے میں فرعون،عصاء،نعلین اور وادی مقدّس کی تاویلات کرتا ہے،اگر ان صورتوں کا اثبات کریں (یعنی الفاظ وکلا م کے ظاہری مطلب ومفہوم کو برقرار رکھیں) پھروہ ان کو معانی کی طرف اشارہ کریں تو علم و معرفت میں ایک چیزہے اور اس کا کوئی مرتبہ ہے۔ان کے قیاس پر کہ حشر جسمانی و روحانی کے درمیان جمع کریں۔ اگر صرف معانی کا اعتقاد کریں اور الفاظ و صور کے قائل نہ ہوں تو یہ بجائے خود کفر و الحاد ہے اور یہ مذہب باطنیہ ہے۔
اس مسکین(یعنی شیخِ محدث رحمہ اللہ) کے ایمانی ذائقہ پریہ طریقہ اولیٰ بھی استبعاد اور انکار کی طرف مشیر اور موہم ہے گویاانہوں نے وجودِ صور کو جب دائرۂ امکان عادی سے بعید جانا تو تاویل کی طرف گھوم گئے۔حالانکہ ایمان اس کے سننے اور ماننے ہی کا نام ہے جیسا کہ اس واقعہ معراج کے سلسلے میں سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا اور اسی دن سے آپ ”صدیق“ کے نام و لقب سے موسوم ہوئے اور چند ایک ضعیف الاعتقادمسلمان دائرۂ ایمان سے نکل گئے۔علم الیقین،عین العین سے پہنچتاہے۔ جب بھی کلام کر تااور زبان وتاویل اور اس کے امکان کا اثبات دلائل کلامیہ سے کھولنا عقل اور اس کے حیلوں میں گرفتار ہونا ایمان وبندگی سے بعید ہے اور ہم ایمانداروں کو خدااو روسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے، اگرجو کچھ ہم کسی سے سنیں گے یا کریں گے تو یہ فرقہ اسے تقلید کہتا ہے۔وہ یہ نہیں جانتے کہ تقلید کس کی ہے؟
یہ تقلید اس کی ہے جس کی تحقیق معجزات قاہرہ سے ثابت ہے اور محقق کی تقلید عین تحقیق ہے اور حقیقتاَ یہ تقلید بھی نہیں یہ صراطِ مستقیم کا اتباع ہے۔مقلد تو تم ہوجو عقل کی تقلید کرتے ہو اور اس کے کہے پر چلتے ہو۔جس کی تحقیق ثابت شدہ نہیں ہے اور اس کی راہ میں سراسر شکوک و شبہات ہیں فلاسفر اصلیت میں خود انبیاء علیہم السلام کے منکر ہیں۔ہمیں ان سے کیا کام، ان کا نبی تو ان کی عقل ہے اور ان متکلمین کو کیا ہوگیا ہے کہ باوجود راہ راست کے وہ گم گشتہ ہیں اور راہ میں گفتگوشبہہ اور جدال پیدا کرتے ہیں۔اگر چہ ان کی نیت، فلاسفر کی مخالفت اور ان کا رد ہے لیکن سلوکِ راہ میں عقل اور اس کے پیروؤں کی موافقت کرتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~

اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ۔ ۔ ۔ رجب المرجب



اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ۔ ۔ ۔ رجب المرجب

وجہ تسمیہ : قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات)

ماہ رجب کی فضیلت :۔

رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے :

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)
ترجمہ :۔"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان)

سرکار غوث الثقلین رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ "رجب کا ایک نام مطھر ہے۔ " (غنیتہ الطالبین ص ٣٥٣)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٧٠)

ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣)



رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف

حدیث شریف کے مطابق "رجب المرجب" اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر "معراج شریف" سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، " حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔" (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)

مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔

"ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ"

پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو "سجود ملائکہ سے افضل" قرار دیا ہے، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، "حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل" قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام "سید المرسلین" ہے لہذا "سید الملائکہ" بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔

جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں

اسلامی بھائیوں اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں۔

اول ۔۔۔ اسریٰ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
دوم ۔۔۔ معراج۔
(حصہ اول )۔۔۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔
(حصہ دوم)۔۔۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک۔
سوم ۔۔۔ اعراج، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک۔

خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور سورئہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔



ماہ رجب کے نوافل

لیلۃ الرغائب کی فضیلت :۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے جامع الاصول کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے " حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے "لیلۃ الرغائب" کا تذکرہ فرمایا وہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہے (یعنی جمعرات کا دن گزرنے کے بعد)

اس رات میں مغرب کے بعد بارہ رکعات نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ القدر تین دفعہ اور سورئہ اخلاص بارہ بارہ دفعہ پڑھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ درود شریف ستر (٧٠) مرتبہ پڑھے۔

٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَسَلِّمْ
(ترجمہ:۔ اے اللہ! رحمت فرما حضرت محمد بنی امی پر اور ان کی آل و اصحاب پر اور بھی اور سلامتی کا نزول فرما)

٭ پھر سجدہ میں جا کر ستر (٧٠) مرتبہ یہ پڑھے: سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ
(یعنی پاک و مقدس ہے ہمارا رب اور فرشتوں اور حضرت جبرئیل کا رب)

٭پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستر بار یہ پڑھے:۔ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ
(یعنی اے اللہ! بخش دے اور رحم فرما اور تجاوز فرما اس بات سے جسے تو جانتا ہے بے شک تو بلند و برتر اور عظیم ہے)

٭ پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی دعا پڑھے اور پھر سجدے میں جو دعا مانگے گا قبول ہوگی۔ (ما ثبت من السنۃ ، ص ١٨١)

حضرت سلطان المشائخ سے منقول ہے کہ جو شخص لیلۃ الرغائب کی نماز ادا کرے اس سال اسے موت نہ آئے گی۔ (لطائف اشرفی جلد دوم ص ٣٤٣)

حافظ عراقی علیہ الرحمہ اپنی تالیف" امالی" میں بحوالہ حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر سلامی علیہ الرحمہ سے ناقل ہیں " حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث مروی ہے کہ "جس نے رجب کی پہلی رات بعد مغرب بیس رکعات پڑھیں تو وہ " پل صراط" سے بجلی کی مانند بغیر حساب و عذاب کے گزر جائے گا"۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٨٣)

محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس السرہ النورانی لکھتے ہیں :" ماہ رجب کی پہلی شب میں نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز ادا کریں، اس کے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پڑھیں۔ بیس رکعات مکمل ہونے کے بعد یہ کلمہ شریف پڑھیں، "لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ، مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کی بہت فضیلت ہے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم ،ص ٣٤٢)

رجب کی پندرہ تاریخ میں مدد چاہنے کے لئے، اشراق کے بعددو دو رکعت سے (پچیس دفعہ میں) پچاس رکعات نماز ادا کریں۔ اس کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد، سورۃ الاخلاص اورمعوذ تین پڑھیں اور پھر دعا کریں۔ یہ نماز ١٥ رجب کے علاوہ ١٥ رمضان میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)

رجب کی پندرہ تاریخ میں مشائخ کا معمول رہا ہے کہ دس رکعات نماز ادا کیجئے۔ ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد تین بار اور دوسرے قول کے مطابق دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیئے، جب نماز سے فارغ ہوں تو سو (١٠٠) مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (اللہ پاک ہے اور تعریف اسی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے)

تیرہ، چودہ اور پندرہ (یعنی ایام بیض) رجب کی راتوں میں بیدار ہوں اور ان تینوں راتوں میں ہر شب سو سو رکعات نماز ادا کریں (یعنی تینوں راتوں میں مجموعی طور پر تین سو (٣٠٠) رکعات ادا کریں) ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں جب نماز سے فارغ ہوں تو ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھیں۔ انشائ اللہ تعالیٰ عزوجل زمانے کی جملہ بلاؤں اور آسمان کی آفتوں سے محفوظ رہیں گے اور فلکی شر اور زمینی خرابیوں سے سلامت رہیں گے اور اگر ان راتوں میں موت واقع ہو جائے تو شہید کا درجہ پائیں گے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)

٢٧ ویں شب کی خصوصی عبادات:۔ حافظ ابن حجر مکی علیہ الرحمہ کہتے ہیں ہمیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً حدیث پہنچی کہ " رجب میں ایک رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے لیے سو برس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ رجب کی ٢٧ویں شب ہے اس میں بارہ رکعات دو دو کر کے ادا کریں پھر آخر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سو مرتبہ ، پھر استغفار سو مرتبہ ، پھر درود شریف سو مرتبہ پڑھ کر اپنے امور کی دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا دوسری روایت میں ہے کہ" اللہ تعالیٰ ساٹھ سال کے گناہ مٹا دے گا"۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٨٤)

ستائیسویں رجب کی عبادات:۔ ٢٦ رجب کا روزہ رکھیں مغرب سے قبل غسل کریں، اذان مغرب پر افطار کریں مغرب کی نماز ادا کریں پھر ستائیسویں شب میں بیدار رہیں۔ عشائ کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کریں اور ہر رکعت میں الحمد شریف یعنی سورہ فاتحہ کے بعد سورہئ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر مدینۃ المنورہ کی جانب رخ کر کے گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِمُشَاھِدَۃِ اَسْرَارِ الْمُحِبِّیْنَ وَبِالْخِلْوَۃِ الَّتِیْ خَصَّصْتَ بِھَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْنَ حِیْنَ اَسْرَیْتَ بِہ لَیْلَۃِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِیْنَ اَنْ تَرْحَمَ قَلْبِیْ الْحَزِیْنَ وَ تُجِیْبُ دَعْوَتِیْ یَا اَکْرَمَ الْاَکْرَمِیْنَ

تو اللہ تعالیٰ شب معراج کے وسیلہ سے دعا قبول فرمائے گا، اور رجب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے تو ان کا دل زندہ رکھے گا جو یہ دعا پڑھیں گے۔ (نزہۃ المجالس جلد اول صفحہ ١٣٠ فضائل الایام والشہور، صفحہ ٤٠٣)



قطب الاقطاب، غوث الاغواث، سرکار فرد الافراد، سید الاوتاد، شہنشاہ بغداد، غوث اعظم الشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی تحریر فرماتے ہیں، "رجب المرجب کی ستائیسویں رات بڑی بابرکت ہے کیوں کہ اسی شب میں سید الانبیائ والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معراج شریف کا معجزہ عطا فرمایا۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ ٣٦٣)

حضرت مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی تعلیم کردہ دعا:۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا عَالِمُ الْخَفِیَّۃِ وَ یَا مَنِ السَّمَائُ بِقُدْرَتِہ مَبْنِیَّۃٌ وَّیَا مَنِ الْاَرْضُ بِعِزَّتِہ مَدْحِیُّۃٌ وَّ یَا مَنِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِنُوْرِ جَلَالَہ، مُشْرِقَۃٌ مُّضِیَّۃٌ وَ یَا مُقْبِلًا عَلٰی عُلِّ نَفْسٍ مُّؤْمِنَۃٍ ذَکِیَّۃٍ وَّ یَا مَسْکَنُ رُعْبَ اَخَائِفِیْنَ وَاَھْلُ التَّقِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ حَوَائِجُ الْخَلْقِ عِنْدَہ، مَقْضِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ نَجٰی یُوْسَفَ مِنْ رِّقَ الْعُبُوْدِیَّۃٍ وَّ یَامَنْ لَّیْسَ لَہ، بَوَّابٌ یُّنَادِیْ وَلَا صَاحِبٌ یَّغْشٰی وَلَا وَزِیْرٌ یُّغْطٰی وَلَا غَیْرَہ، رَبٌ یُّدْعٰی وَلَا یَزَادَ عَلٰی کَثْرَۃِ الْحَوَائِجِ اِلَّا کَرَمًا وَّجُوْدًا وَّصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَعْطِنِیْ سُوْئَ الِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
(ترجمہ) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوںّ اے پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، اے وہ ذات! جس نے اپنی قدرت سے آسمان بنائے، اے وہ ذات! جس کی قدرت سے زمین بچھائی گئی۔ اے وہ ذات! جس کے نور جلال سے سورج اور چاند روشن اور پرنور ہیں، اے وہ ذات! جس کی توجہ ہر پاک نفس کی طرف ہوتی ہے، اے وہ ذات جو ،ہراساں اور ترساں لوگوں کو خوف سے تسکین دینے والی ہے، اے وہ ذات! جس کے یہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں اے وہ ذات! جس نے نجات بخشی یوسف (علیہ السلام) کو غلامی کی ذلت سے، اے وہ ذات! جس کا کوئی دربان نہیں جس کو پکارا جائے اور نہ کوئی مصاحب ہے جس کے پاس حاضری دی جائے اور نہ کوئی وزیر ہے کہ جس کو نذر پیش کی جائے اور نہ اس کے علاوہ کوئی رب ہے کہ اس سے دعا کی جائے، اے! وہ کہ جس کا کرم اور جود، حاجتوں کی کثرت کے باوجود بڑھتا ہی جاتا ہے، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے میری مراد عطا کر، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٩)



رجب میں شب بیداری اور قیام

ماہ رجب کی پہلی، پندرہویں اور ستائیسویں شب میں بیدار ہونا اور عبادات میں مشغول ہونا چاہئے۔ نیز رجب کی پہلی جمعرات (نوچندی) کا روزہ رکھیں اور پہلی شب جمعہ میں قیام کریں۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پہلی شب جمعہ کو فرشتے "لیلۃ الرغائب" (مقاصد کی رات) کہتے ہیں، جب اس رات کی اول تہائی گزر جاتی ہے تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو کعبہ یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو جائے، اس وقت اللہ تعالیٰ تمام ملائکہ کو اپنے دیدار سے نوازتا ہے اور فرماتا ہے مجھ سے مانگو جو چاہو، فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب! عرض یہ ہے کہ تو رجب کے روزہ داروں کو بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں انھیں بخش دیا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٢)

ماہ رجب کی راتوں میں بالخصوص پہلی رات کی دعائیں:۔

اِلٰھِیْ تَعَرَّضَ لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ وَ قَصْدَکَ الْقَاصِدُوْنَ وَاَھْلُ فَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ الطَّالِبُوْنَ وَلَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ نَفَحَاتُ وَ جَوَائِزُ وَ عَطَایَا وَ مَوَاھِبَ تَمُنُّ بِھَا عَلٰی مَنْ تَشَائُ مِنْ عِبَادِکَ وَتَمْنَعُھَا مِمَّنْ لَّمْ تَسْبِقُ لَہ، الْعِنَایَۃُ مِنْکَ وَھَا اَنَا عَبْدُکَ الْفَقِیْرِ اِلَیْکَ الْمُوَمِّلُ فَضْلُ وَ مَعْرُوْفِکَ فَاِنَّ کُنْتَ یَا مَوْلَایَ تَفْضَلْتَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ وَجَدْتُ عَلَیْہِ بِعَائِدَۃٍ مِّنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَجُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
یا الٰہی! اس رات میں بڑھنے والے تیرے حضور میں بڑھے اور تیری طرف قصد کرنے والوں نے قصد کیا، اور طالبوں نے تیری بخشش اور تیرے احسان کی امید رکھی، اس رات میں تیری طرف سے مہربانیاں، عطیے اور بخششیں ہیں تو ہی ان پر احسان کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور جن پر تیری عنایت نہ ہوگی ان سے روک لے گا( میں تیرا محتاج بندہ ہوں، تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوں، میرے مولا! اس رات اگر تو کسی مخلوق پر فضل کرے اور اپنی عنایت سے کسی کو نوازے تو سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنے فضل و احسان سے مجھ پر نوازش فرما! یا رب العالمین) روایت ہے کہ حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ آپ سال میں چار راتیں ہر کام سے خالی کر کے عبادت کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے۔ رجب کی پہلی رات، عیدالفطر کی رات، عیدالاضحی کی رات اور شعبان کی پندرہویں شب۔ پھر ان راتوں میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ مَصَابِیْحَ الْحِکْمَۃِ وَمَوَالِیَ النِّعْمَۃِ وَ مَعَادِنِ الْعِصْمَۃِ وَاعْصِمْنِیْ بِھِمْ مِّنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّلَا تَاْخُذْنِیْ عَلٰی غَرَّۃٍ وَّلَا عَلٰی غَفْلَۃٍ وَّلَا تَجْعَدْ عَوَاقِبَ اَمْرِیْ حَسْرَۃً وَّ نَدَامَۃً وَّارْضَ عَنِّیْ فَاِنَّ مَغْفِرَتِکَ لِلظَّالِمِیْنَ وَاَنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ واَعْطِنِیْ مَالَا یَنْفَعْنِیْ فَاِنَّکَ الْوَسِیْعَۃُ رَحْمَۃَ الْبَدِیْعَۃُ حِکْمَۃُ فَاعْطِنِیْ السَّعَۃَ وَالدَّعَۃَ وَالْاَمِنُ وَالصِّحَۃُ وَالشُّکْرُ وَالْمُعَافَاۃِ وَالتَّقْوٰی وَالصَّبْرَ وَ الصِّدْقَ وَعَلَیْکَ وَعَلٰی اَوْلِیَائِکَ اَعْطِنِیْ الْیُسْرَ مَعَ الْعُسْرِ وَالْاَمْنَ بِذَالِکَ اَھْلِیْ وَوَلَدِیْ وَاِخْوَانِیْ فِیْکَ وَمِنْ وِّالْدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
(ترجمہ) یا اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود اور رحمت بھیج، یہ لوگ حکمت و دانائی کے چراغ ہیں، نعمتوں کے مالک ہیں، عصمت و پاکی کی کانیں ہیں، مجھے بھی ان کے ساتھ ہر بدی سے محفوظ رکھ، غرور اور تکبر کے سبب مجھے نہ پکڑ، میرے انجام کو حسرت و ندامت والا نہ بنا۔ تو مجھ سے راضی ہوجا، بے شک تیری مغفرت ظالموں کے لئے ہے اور میں ظالموں میں سے ہوں۔ الہٰی مجھے وہ چیز عطا فرما جو تجھے ایذا نہیں دیتی، اور مجھے وہ چیز بخش دے جو مجھے فائدہ دینے والی ہے، تیری رحمت وسیع ہے، تیری حکمت نادر ہے اور عجیب ہے، مجھے راحت اور کشادگی عطا فرما، امن و تندرستی دے، نعمت پر شکر کی توفیق دے، عافیت اور پرہیز گاری اور صبر عطا فرما ، اپنے اور اپنے دوستوں کے نزدیک مجھے راست اور لطف و عنایت فرما، سختی کے بعد آسانی دے، میرے اہل میرے فرزندوں اور میرے بھائیوں پر جو تیری راہ پر چلنے والے ہیں اور مسلمانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں پر مسلمان مرد اور عورتوں پر اپنی رحمت عام فرما دے اور سب کو اپنی رحمت میں شامل فرما۔ آمین
رجب کے نفلی روزے اور جنت کے آٹھوں دروازے

حضرت نوح علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کفر و طاغوتی طاقتوں کی تباہی کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب بصورت طوفان نازل ہونا شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کشتی میں اہل ایمان کے ساتھ سوار ہونے کا حکم فرمایا تو وہ رجب کا مہینہ تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور آپ کی ہدایت پر آپ کے ساتھیوں نے بھی روزہ رکھا تھا، اس کی برکت سے کشتی چھ ماہ چلتی رہی اور دس محرم (یوم عاشورہ) کو " جودی پہاڑ" پر ٹھہری۔ اور جب کشتی سے اترے تو آپ اور آپ کے رفقائ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور شکرانہ کا روزہ یوم عاشورا رکھا۔ (ماثبت من السنۃ صفحہ ١٧٣)

سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ طویل حدیث نقل کرتے ہیں، کہ رجب کے روزوں کا ثواب اس طرح ہوگا۔

ایک روزے کا ثواب: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور فردوس اعلیٰ۔
دو روزوں کا ثواب: دو گنا اجر۔ ہر اجر کا وزن دنیا کے پہاڑوں کے برابر۔
تین روزوں کا ثواب: گہری خندق کے ذریعے جہنم ایک سال مسافت جتنی دور ہوگی۔
چار روزوں کا ثواب: امراض جذام، برص اور جنون سے محفوظ اور فتنہ دجال سے محفوظ۔
پانچ روزوں کا ثواب: عذاب قبر سے محفوظ۔
چھ روزوں کا ثواب: حشر میں چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند۔
سات روزوں کا ثواب: دوزخ کے سات دروازے بند۔
آٹھ روزوں کا ثواب: جنت کے آٹھوں دروازے کھلیں گے۔
نو روزوں کا ثواب: کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے قبر سے اٹھنا اور منہ جنت کی طرف۔
دس روزوں کا ثواب: پل صراط کے ہر میل پر آرام دہ بستر فراہم ہوگا۔
گیارہ روزوں کا ثواب: حشر کے دن عام لوگوں میں سب سے افضل ہوگا۔
بارہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ روز حشر دو جوڑے پہنائے گا جس کا ایک جوڑا ہی کل متاع دنیا سے افضل اور قیمتی ہوگا۔
تیرہ روزوں کا ثواب: روز حشر سایہ عرش میں خوان نعمت (انواع و اقسام) تناول کرے گا۔
چودہ روزوں کا ثواب: روز حشر اللہ تعالیٰ کی خاص عطا، جو بصارت، سماعت، وہم و خیال سے ورائ ہوگی۔
پندرہ روزوں کا ثواب: روز حشر موقف امان میں، مقرب فرشتے یا نبی یارسول مبارک باد دیں گے۔
سولہ روزوں کا ثواب: دیدار الہٰی اور ہمکلام ہونے والوں کی پہلی صف میں شمولیت
سترہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ پل صراط کے ہر میل پر آرامگاہ فراہم فرمائے گا۔
اٹھارہ رزوں کا ثواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبہ میں قیام نصیب ہوگا۔
انیس روزوں کا ثواب: حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے محلات کے روبرو ایسے محل میں قیام، جہاں اس کے سلام نیاز و عقیدت کا جواب دونوں نبی علیہما السلام دیں گے۔
بیس روزوں کا ثواب: آسمان سے ند،ا مغفرت کا مژدہ۔

ان شاء اللہ تعالیٰ و ان شاء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٢)

رجب میں کار خیر اور صدقہ و خیرات

٭حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا "جس نے اپنے مسلمان بھائی سے رجب کے مہینے میں (جو اللہ کا ماہ "اصم" ہے)غم دور کیا تو اللہ اس کو فردوس میں نگاہ کی رسائی کے بقدر (حد نظر تک) وسیع محل مرحمت فرمائے گا، خوب سن لو! تم ماہ رجب کی عزت کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ہزار درجہ بزرگی عطا فرمائے گا۔" (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)

٭حضرت عقبہ رحمۃ اللہ علیہ بن سلامہ بن قیس نے مرفوعا روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رجب میں صدقہ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کوا ہوا میں پرواز کر کے اپنے آشیانہ سے اس قدر دور ہو جائے کہ اڑتے اڑتے بوڑھا ہو کر مر جائے (بیان کیا جاتا ہے کہ کوے کی عمر پانچ سو سال ہوتی ہے) (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں، جس نے رجب میں کچھ بھی خیرات کی اس نے گویا ہزار دینار خیرات کئے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے برابر نیکی لکھے گا اور ہزار درجہ بلند فرما کر ہزار گناہ مٹا دے گا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٧)

٭۔۔۔۔ رجب ظلم چھوڑ دینے کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔ رجب توبہ کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔ رجب عبادت کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔ رجب نیکیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔ رجب کھیتی (فصل) بونے کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔ رجب معجزات کا مہینہ ہے۔

روزہ افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں:۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ
الہٰی میں تجھ سے تیری رحمت کے صدقے میں جو تمام چیزوں پر محیط ہے، تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔

حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا " بے شک رجب عظمت کا مہینہ ہے اس میں نیکیاں دگنی کی جاتی ہیں جس نے اس کے ایک دن کا روزہ رکھا وہ سال بھر کے روزے کے برابر ہے" ۔ (جامع الاصول)

امام بیہقی علیہ الرحمہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا اور کہا کہ اس کا مرفوع ہونا منکر ہے " رجب بڑا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ اس میں نیکیاں دوچند کر دیتا ہے پس جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا گویا اس نے سال بھر روزہ رکھا اور جس نے اس میں سات دن روزے رکھے تو اس سے جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے آٹھ دن روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے دس دن روزے رکھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا ضرور عطا فرمائے گا اور جس نے اس کے پندرہ دن کے روزے رکھے تو آسمان سے منادی پکارے گا تیرے گذشتہ تمام گناہ بخش دیئے گئے اب ازسر نو عمل کر، جس نے زیادہ عمل کیے اسے زیادہ ثواب دیا جائے گا۔ (ما ثبت من السنۃ ، ص ١٧١۔١٧٠)






ماہ رجب میں وصال فرمانے والے صحابہ و اولیاء وعلماء رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین

یکم رجب المرجب:۔

٭ حضرت احمد حوارے ۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭حضرت ناصح الدین ابو محمد چشتی زاہد مقبول ۔۔۔۔۔۔٤٢١ھ ٭ حضرت شیخ اخی فرخ زنجانی ۔۔۔۔۔۔٤٥٧ھ ٭حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی شہنشاہ الارواح ۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ٭حضرت شیخ علاؤالحق پنڈوی ۔۔۔۔۔۔٨٠٠ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل قطب عالم چوہڑ بندگی قریشی ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شاہ پیرا ۔۔۔۔۔۔١٠٨٩ھ ٭حضرت شاہ بہولن چشتی ۔۔۔۔۔۔١١٠٤ھ ٭ حضرت علم الہدیٰ قاضی محمد ثنا اللہ پانی پتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭خواجہ محمد الدین سیالوی

٢رجب المرجب:۔

٭حضرت مولانا نظام الدین گنجوی ۔۔۔۔۔۔٥٩٦ھ ٭ حضرت خواجہ علاؤالدین عطار ۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭حضرت مولوی عصمت اللہ لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١١٣ھ ٭حضرت حافظ عبدالشکور خالصپوری۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٩ھ ٭حضرت قادر بخش بن حسن علی حنفی،سہسرامی۔۔۔۔۔۔١٣٣٧ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی مجددی۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/٦جون١٩٤٦ئ ٭حضرت علامہ عین القضاۃ بن محمد وزیر بن محمد جعفر حسینی، حنفی، نقشبندی، حیدرآبادی ثم لکھنوی۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٣ھ ٭ مفتی نور اللہ نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ٭حضرت سید ابو الحسنات محمد احمد قادری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)

٣رجب المرجب:۔

٭حضرت خواجہ اویس قرنی علیہ الرحمہ٭ حضرت تاج العارفین ابو الوفا کاکیش۔۔۔۔۔۔ ٣٠٥ھ ٭حضرت ابو علی محمد ثقفی۔۔۔۔۔۔ ٣٢٨ھ ٭حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی سرمدی ۔۔۔۔۔۔٤٥٥ھ ٭ حضرت خواجہ گرگ اللہ ولی ۔۔۔۔۔۔٧٠٥ھ ٭حضرت سید محی الدین سمنانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت اخون پنجوبابا افغان۔۔۔۔۔۔٩١٧ھ ٭ حضرت سید درویش احمد ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمدی عرف شاہ فیاض چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شاہ سلامت اللہ کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٨١ھ ٭ حضرت عبداللہ شاہ کشمیری آفاقی ۔۔۔۔۔۔١٣١٠ھ ٭حضرت سید عبدالفتاح بخاری (مجذوب) اولاد سید سخی مرتضی بخاری مزار ٹنڈو سائیں داد محمد ۔۔۔۔۔۔١٣٩٨ھ/١٠ جون ١٩٧٨ئ

٤ رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابو محمد ابو عمرو زجاجی۔۔۔۔۔۔ ٣٤٨ھ ٭ حضرت محمد فرخ شاد وحدت ۔۔۔۔۔۔١١٢٣ھ ٭ مولانا عبدالباری بن عبدالوہاب بن عبدالرزاق انصاری فرنگی محل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٤ھ/١٩ جنوری ١٩٢٦ء٭حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔٢٠٤؁ھ

٥ رجب المرجب:۔

٭حضرت امام موسیٰ کاظم ٭ حضرت امام الاولیائ خواجہ حسن بصری ۔۔۔۔۔۔١١٠ھ ٭حضرت ابو القاسم اسحٰق بغدادی ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭حضرت امام ابوالحسن احمد قدوری ۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ ٭ شیخ ابوالحسن فخر الاسلام علی بن محمد البزوری الحنفی علی بن محمد ۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ/١٠٨٩ئ ٭حضرت عبداللہ مسافر صحرانی قادری شطاری خلیفہ حبیب اللہ شاہ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٩ھ/١٦ مارچ ١٩٢١ئ

٦ رجب المرجب:۔

٭ حضرت قاسم علی بن محمد حریری صاحب مقامات حریری ۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین حاجی شریف زندنی نفی القضا ۔۔۔۔۔۔٥٥٤ھ ٭ حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند غریب نواز شیخ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ/٦٣٣ھ ٭حضرت قطب الدین ابو لغیث جمیل یمنی سمرقندی۔۔۔۔۔۔٧٦٧ھ ٭ حضرت سید موسیٰ قطب الا عظم ۔۔۔۔۔۔٨٩٦ھ ٭ حضرت قطب اعظم شیخ عیسیٰ برھانپوری ۔۔۔۔۔۔٨٩٩ھ ٭ حضرت شاہ فتح اللہ سنبھلی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭ حضرت شیخ عبداللہ عرف حاجی بہادر ۔۔۔۔۔۔١٠٩٥ھ ٭حضرت سید عبدالرحمن شاہ شہید (مدفون احاطہ عالم شاہ بخاری) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ/١٩ فروری ١٩٥٦ء٭حضرت صغار احمد خاں المعروف احمد بھیا حضور چشتی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٤ھ/٢٦ جولائی ١٩٧٤ئ

٧ رجب المرجب:۔

٭ حضرت عین الدین شامی ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن سلیمان رودباری ۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد تہاک بغدادی ۔۔۔۔۔۔٧١٧ھ ٭حضرت شیخ جلال الدین تبریزی ۔۔۔۔۔۔٧٦٢ھ ٭ حضرت دیوان محمد بہاؤ الدین ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت میر طاہر تیزرو بدخشی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٧ھ ٭حضرت شاہ عمر بہاری ٭حضرت حاجی عبدالکریم چشتی(مصنف شرح خصوص الحکم)۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭حضرت غلام دستگیر نامی

٨ رجب المرجب:۔
٭امام دار قطنی محدث٭ حضرت شیخ زین العابدین ابن نجیم حنفی مصری(صاحب الاشباہ والنظائر) ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٤ھ٭ حضرت علامہ جلال تھانیسری ۔۔۔۔۔۔١٠٣٦ھ ٭ حضرت سید محمود بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭حضرت قاضی محمدعاقل چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٩ھ ٭حضرت مولوی عبدالصمد خالصپوری۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ ٭حضرت شاہ عبد الرب

٩رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو جعفر احمد بن وہب بصری ۔۔۔۔۔۔٢٧٠ھ ٭حضرت ابو عبداللہ علی ماکور ۔۔۔۔۔۔٤٤٢ھ ٭محدث ابو شجاع حافظ شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ ہمدانی (اولاد صحابی رسول و قاتل اسود عنسی فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ) مصنف فردوس، تاریخ ہمدان، ولادت ۔۔۔۔۔۔٤٤٥ھ وفات ٥٠٩ھ ٭ شہردار دیلمی کا انتقال ۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد تبریزی ۔۔۔۔۔۔٦٤٥ھ ٭حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی سہروردی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شیخ برکیہ بن شاہوکاتیار (مجذوب سندھ) ۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭حضرت سالار سرمست ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت سید جعفر گیلانی ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شیخ فیض بخش لاہوری چشتی (صاحب حال و قال)۔۔۔۔۔۔١٢٨٦ھ ٭حضرت علامہ محمد حسین بن تفضل حسین، عمری الہ آبادی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ ٭حضرت مولانا مفتی نور محمد بن شیخ احمد حنفی فتحپوری تلمیذ مفتی عبداللہ ٹونکی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٢ھ ٭حضرت شاہ گدا رحمن٭حضرت حافظ موسیٰ پاک چشتی

١٠رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو محمد عبدالرحیم مغربی ۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭ حضرت سلطان ولد بن مولانا روم ۔۔۔۔۔۔٧١٢ھ ٭ولادت امام تقی علیہ الرحمہ٭ وصال علامہ مفتی شاہ محمد مسعود ۔۔۔۔۔۔١٣٠٩ھ/١٨٩٢ئ

١١رجب المرجب:۔

٭حضرت شیخ علی عجمی ۔۔۔۔۔۔٣٤٦ھ ٭ حضرت رکن الاسلام ابو محمد عبداللہ جوینی کوفی ۔۔۔۔۔۔٤٣٢ھ ٭ حضرت سید محمد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٩٤ھ ٭حضرت شیخ منصور زاہد طایحیٰ ۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ ٭ حضرت قصیب البان موصلی ۔۔۔۔۔۔٥٧٩ھ ٭ حضرت شیخ ابی عبداللہ محمد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ ٭ حضرت شاہ فضل اللہ مداری ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ ٭ حضرت شاہ شمس الدین قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٢١ھ ٭حضرت شاہ شکور اللہ قلندری ۔۔۔۔۔۔١١٠٩ھ ٭حضرت شاہ محمد حامد صابری امروھوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٠ھ ٭حضرت شیخ حبیب مصری ۔۔۔۔۔۔١٢٢١ھ ٭حضرت شاہ علی حسین اشرفی٭شیخ المشائخ حضرت امام ابو الحسین احمد نوری مارہروی ٭حضرت شاہ نصر اللہ لکھنوی٭شاہ مخدوم محمد منعم (پٹنہ)

١٢رجب المرجب:۔

٭ حضرت شیخ ابو الحسن فراری ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن فضیل سمر قندی ۔۔۔۔۔۔٣١٩ھ ٭شیخ نجم الدین بن امام ظاہر کوفی ۔۔۔۔۔۔٣٣٦ھ ٭حضرت شیخ محمد فیاض ۔۔۔۔۔۔٧٤٧ھ٭حضرت سید الیاس بصری۔۔۔۔۔۔٩١٩ھ ٭حضرت سید محمد مقبول عالم ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالخالق چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٩ھ ٭ حضرت شیخ ارزانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٢ھ ٭ حضرت شیخ عصمت اللہ نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١١٣٧ھ ٭ حضرت مولانا ابو العباس عبدالحی محمد بحر العلوم لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی (راہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/١٩٤٦ئ

١٣رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ٭حضرت خواجہ عبداللہ محمد مغربی۔۔۔۔۔۔ ٣٣٥ھ ٭حضرت ابو القاسم جعفر رازی ۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ ٭ حضرت ظہیر الدین بخاری ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ ابی الحسن محمد ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭ حضرت محمد علی نور بخش ۔۔۔۔۔۔٨٥٧ھ٭حضرت محمد ابراہیم ابرجی ۔۔۔۔۔۔٩٨٧ھ ٭حضرت محمود درّانی ۔۔۔۔۔۔٩٩٨ھ ٭حضرت سید عبدالقادر لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭ حضرت شاہ نعیم گامی ۔۔۔۔۔۔١١٢١ھ٭ حضرت سید عبداللطیف عرف محی الدین دیلوروی ۔۔۔۔۔۔١١٩٤ھ ٭حضرت خواجہ محمد زبیر کشف الغیب ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت شہ محمد خادم صفی چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٧ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین عرف حاجی شریف قنوجی

١٤رجب المرجب:۔

٭حضرت ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢١ھ٭حضرت طاؤس الحرمین ابو الخیر اقبال حبشی مکی۔۔۔۔۔۔٣٨٣ھ ٭ حضرت ابو المسعود بن اشبیل ۔۔۔۔۔۔٥٦٥ھ ٭امام ابوزکریا محی الدین یحیی بن شرف النواوی ۔۔۔۔۔۔٦٧٧ھ/یکم دسمبر ١٢٧٨ئ ٭حضرت شیخ محمود اسفراری المدنی ۔۔۔۔۔۔٦٩٨ھ٭مخدوم ساہر بن مخدوم معز الدین (خلیفہ مخدوم بلال و مخدوم نوح ہالائی)۔۔۔۔۔۔٩٨٠ھ ٭سید نتھے شاہ۔۔۔۔۔۔ ١١١١ھ٭حضرت سید سالار مسعود غازی٭حضرت سید سمن شاہ بخاری سرکار مجذوب تحصیل ٹنڈو باگوبدین ۔۔۔۔۔۔١٣٤٩ھ/دسمبر ١٩٢٩ئ

١٥رجب المرجب:۔

٭حضرت امام المسلمین سیدنا محمد جعفر صادق ص ۔۔۔۔۔۔١٤٨ھ ٭ حضرت امام المسلمین سیدنا موسی کاظم ص ۔۔۔۔۔۔١٨٣٭حضرت ابو الحسن علی صائغ دینوری ۔۔۔۔۔۔٣٣٠ھ ٭ حضرت قطب الدین محمود فروضنی ۔۔۔۔۔۔٣٩٢ھ٭حضرت شاہ بدر علی لکھنوی ٭شیخ محمد حضرت ابو عبداللہ محمد بن یوسف بن محمد بن احمد بن ابراہیم سورتی ١٣٦١ھ

١٦رجب المرجب:۔

٭حضرت سید یعقوب زنجانی ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ حضرت ابو حمزہ خراسانی۔۔۔۔۔۔٢٩٠ھ ٭ حضرت ابو الفضل محمد۔۔۔۔۔۔ ٣٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد عبداللہ اویسی غزنوی۔۔۔۔۔۔٥٠٥ھ ٭ابوالعباس احمد بن محمد بن خلکان (مؤرخ) ۔۔۔۔۔۔٦٨١ھ ٭حضرت ابو الفتح رکن الدین سہروردی بن صدر الدین بن بہاؤ الدین زکریا۔۔۔۔۔۔٧٣٥ھ ٭ حضرت محمد شیریں المتخلص مرغابی۔۔۔۔۔۔٨٠٩ھ ٭حضرت شاہ بندہ نوازی الدین۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت شاہ مجتبیٰ رومی۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالحق عرف محی الدین۔۔۔۔۔۔ ٩٥٧ھ ٭حضرت خواجہ جمال الدین چشتی قندھاری۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭ حضرت عبداللہ وحدت پوش بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٣ھ ٭حضرت محدث اعظم کچھوچھوی۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ ٭حضرت حافظ محمد شعیب مردانی

١٧ رجب المرجب:۔

٭ حضرت ابوالفضل عباس عم رسول اللہ ا۔۔۔۔۔۔ ٣٢ھ ٭خواجہ ابو یوسف ہمدنی ٭ حضرت امام حسن مثنی۔۔۔۔۔۔ ٦٣ھ ٭ حضرت عمر اشبکی بن داؤد قرشی ۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭حضرت ابو العباس قاسم سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭ حضرت ابوعبداللہ محمد بن خفیف شیرازی ۔۔۔۔۔۔٣٧١ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد داستانی ۔۔۔۔۔۔٤١٧ھ ٭ حضرت سید حسین خنک سوار ۔۔۔۔۔۔٦١٠ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی شاذلی مغربی ۔۔۔۔۔۔٦٥٤ھ ٭حضرت محمد رہبر سندہی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمد مراد کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ ٭حضرت وجھن شاہ نواب گنجی٭ حضرت شاہ تقی علی قلندر ۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ

١٨رجب المرجب:۔

٭شیخ طریقت علامہ علی اکبر بن حیدر علی بن تراب علی علوی، حنفی کاکوروی قلندری ۔۔۔۔۔۔١٣١٤ھ ٭ حضرت ابو محمد عبداللہ مرغابی تونسی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ حسن سرمدی ۔۔۔۔۔۔٧٩٩ھ ٭حضرت بدلی شاہ

١٩رجب المرجب:۔

٭حضرت میر سید محمد اودھی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد انبیا دل خراسانی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٠ھ ٭ حضرت سید ابوالحسین احمد نوری بن ظہور حسن بن حضرت سید آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ

٢٠رجب المرجب:۔

٭حضرت علاؤالدین عامل بادشاہ عامل حزب۔۔۔۔۔۔٨٢٠ھ ٭حضرت شاہ اویس بلگرامی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت امام محی الدین نووی علیہ الرحمہ

٢١رجب المرجب:۔

٭حضرت دیوان محمد ابراہیم کلان ۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭حضرت علامہ مفتی مسیح الدین بن مفتی جمال الدین حنفی حیدرآباد ۔۔۔۔۔۔١٣٢١ھ٭حضرت شیخ نظام الدین بلخی ٭خطیب اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی

٢٢رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو عبداللہ محمد اسماعیل مغربی۔۔۔۔۔۔ ٢٧٩ھ ٭حضرت ابو اسمٰعیل احمد عموہروی ۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ ٭حضرت سید موسیٰ بن داؤد ۔۔۔۔۔۔٦٨٧ھ ٭ حضرت شیخ مخدوم حسن۔۔۔۔۔۔ ٧٩٨ھ ٭ حضرت قاضی ضیائ الدین عرف خیا ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭حضرت قاضی عبدالکریم نگرامی۔۔۔۔۔۔١٢٤٩ھ ٭حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ الوری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)۔۔۔۔۔۔١٣٥٤ھ ٭ حضرت سید علی احمد بن سید عبدالعلی شاہ کچھلی قادری (ڈیرہ غازی خان)۔۔۔۔۔۔١٣٨٢ھ ٭حضرت شمس الدین صحرائی

٢٣رجب المرجب:۔

٭ حضرت شیخ زکریا ہروی ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭حضرت خواجہ احمد معروف بہ رکن الدین علائ الدولہ سمنائی ۔۔۔۔۔۔٧٣٦ھ ٭ حضرت شاہ فرہاد صفات جمالی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت مولانا سیف الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١٢٢٧ھ

٢٤رجب المرجب:۔

٭ حضرت سید مسلم بن حجاج نیشا پوری (صاحب صحیح مسلم شریف) ۔۔۔۔۔۔٢٦١ھ ٭حضرت امام محی الدین یحییٰ نووی ۔۔۔۔۔۔٦٧٦ھ ٭حضرت بندگی مبارک چشتی۔۔۔۔۔۔ ٩٧٦ھ

٢٥رجب المرجب:۔

٭ حضرت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ص ۔۔۔۔۔۔١٠١ھ٭ حضرت شیخ ابو محمد حریری ۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭حضرت شیخ ابو اسحق گرم دیوان ۔۔۔۔۔۔١١٧٨ھ ٭حضرت شاہ عبدالرحمن قلندر خراسانی ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ حضرت محمد دمشقی ۔۔۔۔۔۔١٢٣١ھ ٭حافظ محمد عبداللہ بھرچونڈوی بن قاضی اللہ بخش (خلیفہ حافظ محمد صدیق بھرچونڈی) ۔۔۔۔۔۔١٣٤٦ھ٭حضرت امام مسلم٭قطب الاقطاب شیح رحمکارکاکا (نوشہرہ)

٢٦رجب المرجب:۔

٭ حضرت حسن شاہ پیر غازی (برادر اصغر حضرت عبداللہ شاہ غازی) جوڑیا بازار، کراچی۔

٢٧رجب المرجب:۔

٭حضرت ابو صالح نصر٭حضرت ابو یعقوب سوسی ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭حضرت قاضی القضاۃ امام المسلمین سیدنا ابو یوسف یعقوب بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٨٢ھ٭ حضرت سیدی ابو عیسیٰ محمد ترمذی (صاحب سنن) ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ عمرو مکی ۔۔۔۔۔۔٢٩١ھ ٭ حضرت سید الطائفہ ابو القاسم جنید بغدادی ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت عبدالواحد سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٣٧ھ ٭حضرت امام ابو یعقوب ہمدانی مروزی ۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ٭ حضرت ابو الحسن علی بن حرازم ۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ حضرت سراج الدین عبدالجبار بن غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٠٥ھ ٭عماد الدین ابو صالح نصر نبیرئہ غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٣٢ھ٭ حضرت سید عبدالعزیز بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ علاؤالدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭حضرت شاہ عبد القدوس قلندر بصری ۔۔۔۔۔۔٩١٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد حسن عرف شاہ خیالی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٤٤ھ ٭حضرت شیخ داؤد چونیاں ۔۔۔۔۔۔٩٩٢ھ ٭ حضرت عبدالرحمن بدخشی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٩ھ ٭حضرت شاہ اسکندر ۔۔۔۔۔۔١٠٣٣ھ ٭حضرت شیخ حاجی عبدالکریم چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالرشید دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٥ھ ٭حضرت شیخ احمد تحلی پہاڑی۔۔۔۔۔۔١١٩٠ھ ٭ حضرت رکن الدین آثار الوحدت ٭ حضرت پیر سید امین الحسنات (مانکی شریف راہنما تحریک پاکستان)

٢٨رجب المرجب:۔

٭ حضرت میر تراب لکھنوی ٭حضرت شاہ عفد الدین صابری امروہی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٤ھ٭ حضرت پیر امین الحسنات مانکی شریف

٢٩رجب المرجب:۔

حضرت حافظ احمد علی خاں لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭ حضرت قطب علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٣١٩ھ ٭ حضرت خواجہ کمال الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٨٧ھ٭ حضرت شاہ لطف علی۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت دیوان محمد فضیل۔۔۔۔۔۔٧٥٦ھ٭میر نجف علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت شاہ نوازش علی کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ٭محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد خان لائل پوری٭حضرت علامہ امیر الدین جیلانی

٣٠رجب المرجب:۔

٭ حضرت امام المسلمین سید نا محمد بن ادریس الشافعی ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ھ٭ حضرت شیخ غلام نقشبند لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١٢٦ھ ٭حضرت پیر عبد الرحیم بھرچونڈی۔۔۔۔۔۔ ١٣٩١ھ

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~

Sunday, June 26, 2011

ماہِ رجب المرجب کے فضائل اور نوافل




بسم اللہ الرحمٰن الرحیم   

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ماہ رجب کی بیمشار فضیلت ہے اس ماہ مبارک کی عبادت بہت
افضل ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماہ رجب کا چاند دیکھو تو پہلے ایک مرتبہ یہ دعاء پڑھو :۔

 اَ للّٰھُمَّ بَارِک لَنَا فِی رَجَبَ و شُعبَانَ وَبَلَّغنَا اِلٰی شَھرِ رَمَضَانَ ط

نفل نماز
ماہ رجب کی پہلی شب نماز عشاء کے بعد دس رکعت نماز پانچ سلام سے پڑھے ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ کافرون تین تین مرتبہ اور سورہ اخلاص تین دفعہ پڑھے۔ انشاءاللہ تعالٰی اس نماز کے پڑھنے والے کو اللہ پاک قیامت کے دن شہیدوں میں شامل کرے گا اور ہزار درجہ اس کے بلند کرے گا۔

لآ اِلٰہَ اِلآ اللہُ وَحدَہ لاَ شَرِیکَ لَہ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ یُحی وَیُمِیتُ وَھُوَ حَیٌ لاَ یَمُوتُ بِیَدہِ الخَیر وَھُوَ عَلٰی کُلِ شَی ءٍ قَدِیرٌ اَللّٰھُمَ لاَ مَانِعَ بِمَآ اَعطَیتَ وَلاَ مُعطِیَ لِمَا سَامَنَعتَ وَلاَ یَنفَعُ ذَالجَدِ مِنکَ الجَدُّ۔

پہلی شب بعد نماز عشاء چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں بعد سورہء فاتحہ کے سورہ نشرح ایک بار سورہ اخلاص ایک بار سورہ فلق ایک بار سورہ ناس ایک بار پڑھے جب دو رکعت کا سلام پھیرے تو کلمہ توحید تینتیس (33) بار اور درود شریف تینتیس (33) مرتبہ پڑھے۔ پھر دو رکعت کی نیت باندھ کر پہلی دو رکعت کی طرح پڑھے پھر بعد سلام کے کلمہء توحید تینتیس دفعہ دورد شریف تینتیس دفعہ پڑھ کر جو بھی حاجت ہو اللہ پاک سے طلب کرے۔

انشاءاللہ تعالٰی ہر حاجت قبول ہوگی۔

ماہ رجب کی پہلی تاریخ بعد نماز ظہر دو رکعت نماز پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے سورہ اخلاص پانچ پانچ مرتبہ پڑھنی ہے۔ بعد سلام کے اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے۔ انشاءاللہ تعالٰی درگار رب العزت سے اس نماز پڑھنے والے کے تمام گناہ معاف ہو کر مغفرت ہوگی۔


ماہ رجب کی ہر شب جمعہ نماز عشاء دو رکعت نماز پڑھے پہلی رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ بقر کا آخری رکوع امن الرسول سے کافرین ط تک سات مرتبہ پڑھے۔ پھر دو رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ حشر کی
آخری آیات ھواللہ الذی تا الحکیم ط سات مرتبہ پڑھے۔ بعد سلام کے بارگاہ الٰہی میں جو بھی حاجت ہو طلب کرے
انشاءاللہ تعالٰی جو دعا مانگے قبول ہوگی۔ ہر مراد کے لئے یہ نماز بہت افضل ہے۔




لیلۃ الرغائب اسی مہینہ میں ہوتی اور اس لئے مہینہ کے پہلے جمعہ کی رات کا نام لیلۃ الرغائب ہے اس رات میں بعد مغرب کے بارہ رکعت نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں بعد الحمد کے انا انزلنا تین بار اور اخلاص بارہ مرتبہ پڑھے بعد فراغ ستر بار پڑھے :۔

 اَلّٰھُمَ صلِّ عَلٰی مُحَمَدٍ ن النّٰبِیّ الامُیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَسَلَّم
پھر سجدہ میں جاکر ستر بار پڑھے
سُبُّحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلآئِکَۃِ وَالرُّوحِ
 اور پھر سر اٹھائے اور کہے
رَبِّ اغفِر وَارحَم وَیحَادَ دَرُعَّمَا تَعلَم اِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الاَعظَم
ستر مرتبہ پھر دوسرا سجدہ اسی طرح کرے۔ پھر جو دعا مانگے گا قبول ہوگی۔ انشاءاللہ تعالٰی

 ماہ رجب کے پہلے جمعہ کو ظہر اور عصر کے درمیان چار رکعت نماز ایک سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے آیۃ الکرسی سات بار سورہ اخلاص پانچ مرتبہ پڑھے۔ بعد سلام کے پچیس مرتبہ یہ پڑھے۔
لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَ بِاللہِ الکَبِیرِ المُتَعَالِ ط
پھر ایک سو مرتبہ یہ استغفار پڑھے :۔
 اَستَغفِرُاللہَ الَّذِی لاَاِلٰہ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیّوُمُ غَفَّارُ الذُ نُوبِ وَسَتَّارُ العُیُوبِ وَاَتُوبُ اَلَیہِ ۔
بعد ازاں ایک سو مرتبہ دورد شریف پڑھ کر جو بھی دعا کرے خواہ دنیاوی یا دینی انشاءاللہ تعالٰی درگار الٰہی میں ضرور قبول ہوگی۔
پندرھویں شب کو بعد نماز عشاء دس رکعت نماز پانچ سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص تین تین دفعہ پڑھے۔ بعد نماز کے یہ دعاء پڑھے :۔
لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحدَہ لاَ شَریِکَ لَہ لَہُ المُلکِ وَلَہُ الحَمدُ یُحیٰی وَیُمِیتُ وَھُوَ حَق لاَ یَمُوتُ بِیَدہ الخَیرُ وَھُوَ عَلٰی کل شَیءٍ قَدیِرٌ۔
 اس نماز کے پڑھنے والے کے گناہ ایسے جھڑیں گے جیسے درخت کے سوکھے پتے جھڑ جاتے ہیں۔
ماہ رجب کے کسی جمعہ کی شب کو بعد نماز عشاء دو رکعت نماز پڑھے۔ ہر دو رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے آیۃ الکرسی گیارہ مرتبہ سورہ زلزال گیارہ مرتبہ ۔ سورہ تکاثر گیارہ مرتبہ پڑھے بعد سلام کے درگاہ الٰہی میں اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔ انشاءاللہ تعالٰی اس نماز پڑھنے والے کے تمام گناہ معاف فرما کر اللہ پاک اس کی بخشش فرمائے گا۔

نفل نماز شبِ معراج
ماہ رجب کی ستائیسویں شب کو بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین تین مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے ستر مرتبہ بیٹھ کر یہ پڑھے
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ المَلِکُ الحَقُ المُبینُ
دوسری چار رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ نصر تین تین مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے بیٹھ کر ستر مرتبہ پڑھے۔
 اِنَّکَ قَویُّ مُّعِینٌ وَاحِدِیٌ دَلِیلٌ بِحَقِّ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ۔
تیسری چار رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ اخلاص تین تین مرتبہ ہر رکعت میں بعد سلام کے بیٹھ کر ستر مرتبہ سورہ الم نشرح پڑھے پھر درگاہ رب العزت میں دعاء مانگے، انشاءاللہ تعالٰی جو حاجت ہو گی وہ اللہ تعالٰی قبول فرمائے گا۔
ماہ رجب کی ستائیس (27) تاریخ بعد نماز ظہر چار رکعت نماز ایک سلام سے پڑھے پہلی رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ قدر تین مرتبہ۔ دوسری میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ اخلاص تین دفعہ تیسری میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ فلق تین مرتبہ چوتھی میں بعد سورہ فاتحہ کے سورہ ناس تین دفعہ پڑھے۔ بعد سلام کے دورد پاک ایک سو مرتبہ پڑھے۔ یہ نماز ہر مراد کے لئے انشاءاللہ تعالٰی بہت افضل ہے۔
 آخر ماہ رجب میں دس رکعتیں پانچ سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ کافرون تین بار اور سورہ اخلاص تین بار پڑھے۔ پھر بعد نماز کے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مقدسہ پڑھے۔
لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحدَہ لاَ شَریِکَ لَہ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ یُحی وَیُمِیتُ وَھُوَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ بِیَدِہِ الخَیرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیِرٌ وَصَلّٰی اللہُ عَلٰی سَیِدِناَ مُحَمَدٍ وَعَلٰی اٰلِہ الطَاھِرِینَ وَلاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَ بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیمِ ۔
 پھر مانگ تو اپنے رب سے حاجت اپنی قبول کی جاوے گی دعا تیری اور کرے گا اللہ تعالٰی درمیان تیرے اور دوزخ کے ستر خندق ہر ایک خندق کی چوڑائی پانچ سو برس کی راہ ہوگی اور لکھے گا اللہ تعالٰی تیرے واسطے بدلے ہر رکعت کے ثواب ہزار رکعت کا جب سنی یہ حدیث سلمان نے تو روتے ہوئے خدا کے شکر کے لئے اس کثیر ثواب کے انعام پر سجدہ میں گر پڑے۔


وظائف
ماہ رجب میں پہلی تاریخ سے ہر نماز کے بعد تین مرتبہ اس دعا کو پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔
 اَستَغفِرُاللہُ العَظِیمَ الَّذِی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ ط اِلَیہِ تَوبَۃَ عَبدٍ ظَالِمٍ لاَ یَملِکُ نَفسِہ ضَراً وَّلاَ نَفَعاً وَّلاَ موتاً وَلاَ حَیٰوۃً وَّ لاَ نَشُوراً ط
ماہ رجب المرجب کی پندرہ تاریخ کسی نماز کے بعد ایک مرتبہ یہ استغفار پڑھنی بہت افضل ہے۔ اس دعاء کے پڑھنے والے کی تمام برائیاں مٹا کر اللہ پاک اسے نیکیوں میں بدل دے گا۔
 اَستَغفِرُاللہَ الَّذِی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ غَفَّارُ الذُ نُوبِ وَسَتَّارُ العُیُوبِ وَاَتُوبُ اِلَیہِ ۔
ماہ رجب کی کسی تاریخ کو نماز ظہر یا مغرب یا عشاء کی نماز کے بعد سورہ کہف ایک بار سورہ یٰس ایک بار۔ سورہ حٰم ایک بار سورہ دخان ایک بار سورہ معارعہ ایک بار پڑھے پھر سورہ اخلاص ایک ہزار مرتبہ پڑھے اللہ پاک ان سورتوں کے پڑھنے والے پر خاص رحمت و برکت عطا فرمائے گا۔

نفل روزہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ماہِ رجب کے روزوں کی بہت بڑی فضیلت ہے اور سب سے زیادہ ستائیس تاریخ کے روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے اس روزہ سے عذاب قبر اور نار دوزخ سے محفوظ رہے گا۔ ماہِ رجب کے ایک روزہ کا ثواب ہزار روزوں کے برابر ہے۔


Tuesday, June 14, 2011

سلطان الہند، عطاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم)غریب نواز خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ


سلطان الہند، عطاء رسول، خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ موضع سنجر خراسان 14رجب 537ھ میں پیدا ہوئے۔ سنجر قندہار سے پورب جانب، 24 گھنٹے کے راستے میں واقع ہے۔ یہ گاؤں اب تک موجود ہے۔ اسی کو سبحستان بھی کہتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت غیاث الدین حسن ہے۔ یہ آٹھویں پشت میں عارف حق موسٰی کاظم علیہ الرحمۃ کے پوتے ہوتے ہیں۔

والدہ محترمہ کا نام بی بی ام الورع ہے اور بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں جو چند واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے آپ والدہ کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
آپ کی والدہ کا بیان ہے کہ جس وقت میرا نور نظر لخت جگر میرے شکم میں آیا میرا سارا گھر خیروبرکت سے معمور ہو گیا۔ ہمارے دشمن بھی شفقت و محبت سے پیش آنے لگے۔ کبھی کبھی مجھے بہترین خواب نظر آتے اور جس وقت سے میرے رب نے آپ کے جسم اطہر میں جان ڈالی تو اس وقت سے معمول ہو گیا تھا کہ آدھی رات سے صُبح تک میرے شکم سے تسبیح و تہلیل کی آواز آتی تھی میں اس مبارک آواز میں گم ہو جایا کرتی تھی جب آپ کی ولادت ہوئی میرا گھر نور سے بھر گیا۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت غیاث الدین حسن ایک بڑے جید عالم تھے۔ خواجہ صاحب نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرما لیا اور اس کے بعد سنجر کے ایک مکتب میں داخلہ ہوا۔ آپ نے یہاں ابتدائی طور سے تفسیر، فقہ اور حدیث کی تعلیم پائی اور تھوڑی ہی عرصے میں آپ نے تمام علوم میں مہارت حاصل کرلیا۔

والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا

سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ بچپن ہی میں اپنے والد کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ ابھی آپ کی عمر 15 سال بھی نہ ہوئی تھی کہ والد جاں بحق ہوگئے۔ والد کا وصال شعبان المکرم 544ھ میں ہوا۔ (میرالعارفین صفحہ5)
والد کے ترکہ میں سے حضرت خواجہ کو ایک پن چکی اور ایک باغ۔ یہ دو چیزیں ملیں جس کی آمدنی سے آپ گزر اوقات فرماتے۔ ایک مجذوب نے زندگی میں انقلاب ڈال دیا
سرکار خواجہ اپنے باغ کی دیکھ بھال خود فرماتے تھے۔ ایک دن اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے کہ اچانک ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں داخل ہوگئے۔ خواجہ بزرگ کو بچپن ہی سے صوفیوں اور درویشوں سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ اس لئے نہایت ہی خنداں لبی سے ان کا استقبال کیا اور بہت ہی منکسر المزاجی سے پیش آئے اور انگور کا ایک خوشہ توڑ کر حضرت ابراہیم کے حضور پیش کیا۔ حضرت ابراہیم تو سمجھ ہی رہے تھے کہ حسن کو رہنما کی تلاش ہے جو ان کو حق تک پہنچا دے اور آپ اچھی طرح جان رہے تھے کہ آج کا یہ انوکھا باغبان کل تک لوگوں کے دلوں میں باغبانی کرے گا اور جانے کتنوں کی روحانی پیاس بجھائے گا اور لاکھوں کو مئے توحید کو متوالا بنا دے گا اور جو بھی اس کی ایک نظر سے جام پی لے گا وہ عشق الٰہی میں سرمست ہو جائے گا۔
اس لئے آپ نے کھل کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کو چبا کر حضرت خواجہ کو عنایت فرما دیا۔ اب کیا تھا۔ کھاتے ہی دل کی دنیا بدل گئی حجابات اٹھتے دکھائی دے رہے تھے۔
حضرت ابراہیم تو تشریف لے گئے لیکن سیدنا خواجہ غریب نواز نے اپنا باغ فروخت کرکے فقراء مساکین میں تقسیم فرما دیا اور خود تلاش حق کیلئے چل پڑے۔

حق کی تلاش

آپ سب سے پہلے خراسان تشریف لائے۔ بعدہ سمر قندو بخارا کا سفر فرمایا۔ آخر الذکر دونوں مقامات میں 544ھ سے 550ھ تک علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بغداد، سمر قند اور بخارا اسلامی علوم و فنون کے مرکز تھا۔ مولانا حسام الدین بخاری صاحب شرع الاسلام مولانا اشرف الدین جیسی مشہور اور جلیل القدر ہستیوں سے حضرت خواجہ سے علم حاصل کیا۔ (احسن المیر صفحہ 134)

روانگی حرمین شریفین

بغداد مقدس سے آپ حرمین تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ نے 551ھ میں کیا۔

مُرشد کامل کی خدمت میں

قریہ ہارون ایک چھوٹی سی بستی تھی لیکن خدا کی شان کہ یہ چھوٹی سی بستی نور و نکہت میں بسی ہوئی تھی۔ وہاں ایک عاشق رسول حضرت خواجہ عثمان ہارونی رونق افروز تھے اور تمام بستی خیروبرکت سے معمور تھی۔
حضرت عثمان مشائخ کبار میں سے تھے اور آپ کا فیض دور دور تک جاری تھا۔ متلاشیان حق اور حاجت مندان گوہر مراد سے اپنا دامن بھر لیتے تھے۔ جس وقت خواجہ بزرگ کی نظر اپنے شیخ کامل پر پڑی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ انہیں اب چشمہ آب بقا مل گیا تھا۔ حضرت خواجہ نے خواجہ عثمان ہارونی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ حضرت خواجہ مرید ہونے کا واقعہ خود ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: “میں ایک صحبت میں جس میں جلیل القدر بزرگ جمع تھے نہایت ادب سے حاضر ہوا اور سر نیاز زمین ادب پر جھکا دیا۔ حضور نے حکم فرمایا۔ “دو رکعت نماز ادا کرو“ میں نے تعمیل حکم کی پھر حکم ہوا “رو بقبلہ بیٹھ جاؤ“ میں ادب سے رو بقبلہ بیٹھ گیا۔ پھر ارشاد فرمایا۔ “سورہ بقرہ کی تلاوت کرو“ میں نے ادب کے ساتھ تلاوت کی۔ پھر حکم ہوا۔ “ساٹھ مرتبہ سبحان اللہ پڑھو“ میں نے پڑھا۔ پھر حضور والا نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زبانِ مبارک سے یہ ارشاد فرمایا۔
“میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا۔“ ان تمام امور کے بعد حضرت شیخ نے ایک خاص قسم کی ٹوپی میرے سر پر رکھی جو “کلاہ چہارتر کی“ کہلاتی ہے۔ اور چغہ مبارک مجھے پہنا دیا۔ پھر فرمایا۔ “بیٹھ جاؤ“ میں فوراً بیٹھ گیا اور پھر حکم ہوا “ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو“ جب میں اس سے فارغ ہوا تو فرمایا۔ “ہمارے مشائخ کے یہاں صرف ایک دن رات کا مجاہدہ ہے۔ اس لئے جاؤ ایک دن رات کا مجاہدہ کرو۔“ یہ سن کر میں نے ایک دن رات پوری عبادتِ الٰہی اور نماز میں گزار دی۔ دوسرے دن خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوسی کی دولت حاصل کی اور حکم کے مطابق بیٹھ گیا۔
ارشاد فرمایا “ادھر دیکھو“ آسمان کی طرف اشارہ کرکے۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ کہاں تک دیکھتا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ عرش معلٰی تک۔ پھر ارشاد ہوا۔ “نیچے دیکھو۔“ میں نے نیچے دیکھا تو پھر وہی فرمایا۔ “کہاں تک دیکھتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا۔ تحت الثرٰی تک۔ پھر حکم ہوا ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو میں نے حکم کی تعمیل کی تو پھر حضرت نے ارشاد فرمایا۔ “آسمان کی طرف دیکھو۔“ میں نے عرض کیا۔ حجاب عظمت تک صاف نظر آ رہا ہے۔ فرمایا “آنکھیں بند کرو۔“ میں نے آنکھیں بند کرلیں پھر حکم دیا۔“کھول دو“۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد آپ نے دو انگلیاں میرے سامنے کیں اور دریافت فرمایا۔ کیا دکھائی دیتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا۔ اٹھارہ ہزار عالم میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جب میری زبان سے یہ جملہ ادا ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ “پس اب تیرا کام ہوگیا۔“

فائدہ :۔ یہ تو ایک ولی کے علم کا حال ہے تو پھر نبی کے علم کا حال کیا ہوگا۔ اور کیا دنیا خواجہ عثمان ہارونی کے ان دو انگلیوں کا جواب دے سکتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ تو نبی کے پنجاب رحمت کا جواب دنیا کہاں سے لا سکے گی۔

انگلیاں تھیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

بعد ازاں ایک اینٹ کی طرف جو سامنے پڑی تھی اشارہ کرکے فرمایا “اس کو اٹھا“ میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے کچھ دینار نکلے جن کے متعلق حکم ہوا۔ انھیں لے جا اور قفراء و مساکین میں تقسیم کردے۔ چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی اور خدمت بابرکت میں حاضر ہوا ارشاد ہوا۔ “چند روز ہمارے صُحبت میں رہو۔“ عرض کیا حاضر ہوں۔

بیس سال تک پیرِ کامل کی خدمت میں

سیدنا خواجہ غریب نواز اب اپنے پیرومرشد کے اس قدر متعدد اور شیدائی ہوگئے تھے کہ وقت سفر اور حضر اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر رہتے۔ پیر کا بستہ، توشہ، پانی کا مشکیزہ دیگر ضروری سامان اپنے سر اور کندھوں پر رکھ کر ہم سفر ہوتے تھے۔ کامل بیس سال تک اپنے پیرو مُرشد کی خدمت کرکے معرفت و حقیقت کی تمام منزلیں طے فرمالیں اور فقیری کے رموز و اسرار سے واقف ہوگئے۔

پیر و مُرشد کے ساتھ حرمین کی حاضری

خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:۔ بعد ازاں میں چند روز پیرومرشد کی خدمت میں رہا۔ پیر حضرت نے اس دعاگو کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر اختیار کیا۔ الحاصل ایک شہر میں پہنچے یہاں ایک جماعت درویشوں کی دیکھی جو شراب عشق الٰہی میں سرشار عالم سکر و حیرت میں از خور رفتہ تھی۔ چند دن اُن کی صُحبت میں رہنا ہوا مگر وہ حضرات عالم صحو میں نہ آئے۔ (انیس الارواح)

بعد ازاں مکہ معظمہ کی راہ لی۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر زیارت و طواف خانہء کعبہ سے مشرف ہوئے۔ حضرت خواجہ فرماتے ہیں:۔ پیرو مُرشد نے یہاں بھی میرا ہاتھ پکڑا۔ اور حق تعالٰی کے سپرد کیا اور زیر ناؤ دان خانہء کعبہ دعاءگو ہوئے۔ مناجات کی ندا آئی۔ “ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔“ بعد ازاں مدینہ منورہ آئے اور حرم نبوی میں حاضری دی۔ مجھ سے فرمایا۔ “سلام کر“ میں نے سلام عرض کیا۔ آواز آئی وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر (یہاں سے نبی کی حیات کا مسئلہ حل ہوگیا) اگر نبی مر کر معاذاللہ مٹی میں مل گئے ہوتے جیسا کہ فرقہ باطلہ کا عقیدہ ہے تو جواب ناممکن تھا۔ حدیث شریف میں ہے ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللہ حیی یرزق (بیشک اللہ تعالٰی نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو حرام کر دیا ہے کہ وہ کھائے تو اللہ کا نبی زندہ ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔)
یہ آواز سن کر مُرشد نے فرمایا۔ اب تو درجہ کمال کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے پیر کے ہمراہ بخارا شریف تشریف لے گئے۔ وہ بخارا کے صدر المشائخ سے ملے جن کے بارے میں خواجہ بزرگ فرماتے ہیں۔ یہ بزرگ دوسرے عالم میں تھے ان کی تعریف و توصیف حّد بیان سے باہر ہے۔


سیوستان میں آمد
اس سفر کے بارے میں حضرت خواجہ فرماتے ہیں۔ ایک وقت عثمان ہارونی کے ہمراہ سیوستان کے سفر میں تھا۔ یہاں صومعہ (گرجا گھر) میں ایک بزرگ تھے ان بزرگ کا نام صدر الدین محمد سیوستان تھا۔ بڑے مشغول بزرگ تھے چند دن ان کے پاس رہنا ہوا جو شخص ان کے صومعہ میں آتا محروم نہ جاتا۔ عالم غیب سے کوئی چیز لاکر دیتے اور کہتے اس درویش کو ایمان کی سلامتی کی دعاء سے یاد کرو کیونکہ اگر گور میں اپنا ایمان سلامت لے گیا تو بڑا کام کیا۔“ یہ بزرگ جب ہیبت گور کا تذکرہ سنتے تو مثل بید کے کانپنے لگتے۔ آنکھوں سے خون کے آنسو پانی کے چشمے کی طرح جاری ہو جاتے۔ سات دن تک روتے رہتے اور اپنی آنکھیں ہوا میں کھول کر کھڑے ہو جاتے۔ ہمیں ان کے رونے سے رونا آ جاتا اور کہتے یہ کیسا بزرگ ہے۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے کہتے۔ “اے عزیزان ! مجھے مرگ در پیش ہے جس کا ملک الموت حریف ہو اور قیامت جیسا دن پیش نظر ہو اس کو سونے اور خوش دلی اور خندگی سے کیا کام اور کیسے کسی کام میں مشغول ہونا اچھا معلوم ہو۔ (دلیل العارفین)

پھر انہوں نے فرمایا۔ اے عزیزان ! اگر تمہیں مٹی کے نیچے سونے والے جواسیر موردمار ہیں اور زندان خاک میں محبوس ہیں کا حال ذرہ بھر معلوم ہو جائے تو نمک کی طرح پانی ہو جاؤ۔

اس کے بعد آپ نے یہ حکایت بیان کی۔ ایک وقت میں نے بصرہ میں ایک بزرگ کو دیکھا۔ بہت مشغول تھے میں اور وہ بزرگ گورستان میں ایک قبر کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ بزرگ صاحب کشف تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ اس قبر کے مُردے پر سخت عذاب ہو رہا ہے۔ دیکھ کر وہ بزرگ نعرہ مار کر واصل بحق ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں مثل نمک کے پگھل کر پانی ہو کر ناپید ہو گئے۔ جیسا خوف میں نے ان بزرگ میں دیکھا ویسا نہ آج تک کسی میں دیکھا نہ سنا۔ پھر فرمایا، میں ہیبت گور کی وجہ سے گوشہء تنہائی میں ہوں تم سے آج تیس سال کے بعد گفتگو کی ہے اور یہ حکایت بیان کی ہے۔
“پس اے عزیزان ! مخلوق کے ساتھ وقت گزارنے سے یادِ حق میں وقت صَرف کرنا بہتر ہے ۔ کیونکہ جتنی دیر لوگ خلق میں مشغول رہتے ہیں۔ خدا سے باز رہتے ہیں۔ پس صحبت خلق سے باز رہنا چاہئیے اور زادِ راہ کا انتظام کرنا چاہئیے۔ ہم سب کو وہ دن درپیش ہے۔ ایمان سلامت لے جانا چاہئیے۔ یہ کہہ کر دو خرمے میرے (خواجہ غریب نواز) ہاتھ میں دئیے اور اٹھ کر چلے گئے۔ ان پر گریہ طاری ہوا اور عالم تحّیر میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد خواجہ غریب نواز اپنے پیر کے ہمراہ دمشق اور سنجار ہوتے ہوئے بغداد پہنچے، جس کو خود خواجہ کی زبان سنئیے۔
بعد ازاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ، بغداد واپس تشریف لاکر معتکف ہوگئے اور دعاء گو سے ارشاد فرمایا۔ “اس مقام سے چند روز تک باہر نہ آؤں گا مگر تو چاشت کے وقت آیا کر کہ تجھ سے ترغیب فقر بیان کروں تاکہ مُریدوں اور فرزندوں کیلئے میرے بعد یادگار ہو۔“ یہ فقیر روزانہ حاضر خدمت ہوتا رہا۔ جو کچھ مُرشدوں کی زبان فیض ترجمان سے سنتا قلمبند کر لیتا تھا۔“ اس طرح خواجہ غریب نواز نے ایک رسالہ مرتب کیا جو اٹھائیس مجلسوں پر مُشتمل ہے۔ اس رسالہ کا نام “انیس الارواح“ رکھا۔

پیرو مُرشد سے رُخصت ہونا

خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اپنے پیرِ کامل خواجہ عثمان ہارونی سے بغداد میں رخصت ہوئے۔ اوش ہوتے ہوئے اصفہان پہنچ کر ولی کامل شیخ محمود اصفہانی سے ملے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو مُرید کیا۔ اصفہان سے مکہ معظّمہ پہنچے۔ ساتھ میں مُریدِ خاص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی تھے۔ حج ادا فرمایا اور مدینہ منورہ پہنچے۔

مژدہ جانفزا

انیس بیکساں، چارہ ساز درد منداں رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی دربار سے بشارت ہوئی۔ اے معین الدین ! تُو میرے دین کا معین ہے۔ میں نے ہندوستان کی ولایت تجھ کو عطا کی، تو اجمیر جا۔ سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو جنت کا ایک انار عطا فرمایا۔ حضرت خواجہ بصد احترام و ادب روضہء پاک سے باہر نکلے۔ آپ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ جب وجدانی کیفیت نے قلب کو سکون بخشا تو فرمانِ رسالت یاد آیا مگر متحّیر تھے کہ ہندوستان کدھر ہے اور کہاں ؟ اس فکر میں تھے کہ شام ہوئی۔ سورج ڈوب گیا۔ بعدِ نماز عشاء آنکھ لگی اور آپ سو گئے۔ عالمِ خواب میں تمام ہندوستان کا نقشہ اور اجمیر کا منظر آپ کے سامنے تھا۔ جب آنکھ کھلی سجدہء شکر ادا کیا اور روضہء اطہر پر حاضر ہوکر تحفہء درود و سلام پیش کرکے ہندوستان کی جانب روانہ ہوگئے۔

دوبارہ پیرو مُرشد کی بارگاہ میں

بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے رُخصت حاصل کرکے خواجہ غریب نواز واپس بغداد شریف پہنچے۔ ان دنوں آپ کے پیرو و مُرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی بغداد میں قیام پذیر تھے۔ خدمت میں حاضر ہوکر خواجہ بزرگ نے ارشاد نبوی سے مطلع فرمایا۔ فرطِ مسرت سے آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی اور آپ نے فرمایا۔ ہم معتکف ہوتے ہیں۔ اور حُجرے سے باہر نہیں آئیں گے۔ ملاقات کے آخری روز حضرت شیخ خواجہ صاحب کو اپنا عصائے مبارک، مصلٰی، خرقہء عظمٰی عطا فرمایا۔ نیز وہ تمام تبرکات مصطفوی جو خاندانِ چشت میں سلسلہ بہ سلسلہ اب تک چلے آ رہے تھے۔ آپ کو سُپرد کرکے فرمایا، لیجئے یہ میری یادگار ہیں۔ ان کو اپنے پاس بحفاظت رکھنا۔ جس طرح میں نے رکھا اور تم جس کو اہل سمجھنا دینا۔ فرزند ! خلف وہی ہے جو اپنے پیر کے ارشادات کو اپنے ہوش بگوش میں جگہ دے اور اِس پر عمل کرے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے مُرید حضرت خواجہ معین الدین کو رُخصت فرمایا اور خود عالم تحّیر میں مشغول ہوگئے۔

پیرو مُرشد سے رخصت ہوکر بغداد سے روانہ ہوئے۔ اثنائے سفر میں بدخشاں، ہرات اور سبزوار بھی گئے۔ بلخ سے گزرتے ہوئے آپ نے ولی کامل شیخ احمد خضرویہ علیہ الرحمہ کی مقدس خانقاہ میں چند روز قیام فرمایا۔ حضرت خواجہ کی عادت کریمہ تھی کہ سفر میں اپنے ساتھ تیر و کمان چقماق اور نمکدان ضرور رکھتے تھے تاکہ کسی طرح تکلیف نہ ہو۔ جب بھوک زیادہ لگتی جنگل سے کوئی پرند شکار کرکے طعام فرما لیتے۔ ایک دن آپ نے ایک کلنگ کا شکار کرکے خادم کو ذبح کرکے دیدیا تاکہ بھون لے اور خود نماز میں مشغول ہو گئے، جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے اس کے قریب ہی ایک مشہور فلسفی اور حکیم کی رہائش گاہ تھی۔ ان کا مکتب جاری تھا اور حُصول تعلیم کیلئے دور دراز سے طلباء آتے رہتے تھے۔ ان حکیم صاحب کا نام ضیاء الدین تھا۔ انہیں اپنے علم فلسفہ پر بڑا ناز تھا۔ اسی لئے اولیاء کا ذکر بڑے مضحکہ خیز انداز میں کیا کرتے تھے جس کا لوگوں پر بڑا اثر پڑتا تھا۔ جہاں خواجہ صاحب نماز پڑھ رہے تھے وہاں سے حکیم گزرا۔ جونہی حضرت خواجہ پر نظر پڑی ٹھٹھک کر رہ گیا۔ جب خواجہ صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو اس نے آپ کی پیشانی میں کچھ ایسا جلوہ دیکھا کہ فلسفہ و حکمت کی تمام باتیں بھول گیا۔ اور سلام کرکے ادب سے بیٹھ گیا۔ اتنے میں خادم نے کلنگ بھون کر پیش کیا حضرت خواجہ نے ازراہ کرم اس کی ایک ٹانگ حکیم صاحب کو دی اور دوسری ران کا گوشت خود تناول فرمانے لگے۔ باقی خادم کے حوالے کردیا۔

حکیم ضیاء الدین نے ابھی پہلا ہی لقمہ کھایا تھا کہ باطل کا پردہ چاک ہوگیا اور حقیقت معرفت کے آئینے سامنے آ گئے۔ عقل و فلسفہ کے سبب جو بُرے خیالات ان کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے سب نکل گئے۔ قلب پر ایسا خوف طاری ہوا کہ بے ہوش ہو گئے خواجہ صاحب نے ایک لقمہ ان کے منہ میں ڈال دیا۔ جونہی یہ لقمہ حلق سے نیچے اُترا ہوش میں آ گئے۔ اپنے گذشتہ خیالات پر نادم ہوئے اور اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ حضرت خواجہ کے حلقہء ارادت میں داخل ہوگئے۔ جب خواجہ صاحب بدخشاں پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات ایک معمر بزرگ سے ہوئی جن کی عُمر ایک سو چالیس سال تھی اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی اولاد سے تھے۔ ایک پیر کٹا ہوا تھا۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ مجاہدہ نفسانی میں مشغول تھا کہ ایک دن خواہش نفسانی نے مجبور کیا اور یہ پاؤں جو کٹا ہوا ہے آگے بڑھایا ہی تھا کہ غیب سے نداء آئی۔
اے مدعی ! یہی وعدہ تھا جو فراموش کردیا۔ بس یہ آواز سن کر بے قرار ہوگیا اور اس پاؤں کو کاٹ کر پھینک دیا۔ اس واقعے کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن یہ خیال دل میں بار بار آتا ہے کہ کل قیامت کے دن درویشوں کے سامنے کیا منہ دکھاؤں گا۔ اس کے بعد ہزار پہنچ کر خواجہ غریب نواز حضرت عبیداللہ انصاری کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوئے۔ اس مزارِ مبارک پر ہیبت خداوندی کا نزول تھا، اس لئے آپ بہت مُحتاط رہتے تھے۔ وہاں آپ نے کافی عرصہ مجاہدہء نفس میں گزارا۔ رات بھر عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے اور اکثر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے۔ جب ہرات میں آپ کے شہرت بڑھ گئی اور لوگ جوق در جوق حاضر ہونے لگے تو آپ نے وہاں سے کوچ فرمایا اور سیدھے ہندوستان کی طرف چل پڑے۔
ہندوستان میں خواجہ صاحب کی تشریف آوری

سبزوار سے روانہ ہوکر آپ غزنی پہنچے۔ سلطان المشائخ عبدالواحد سے ملاقات فرمائی۔ آپ کے ساتھ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت محمد یادگار اور حضرت خواجہ فضرالدین گردیزی بھی تھے۔ اللہ والوں کا یہ نورانی قافلہ ہندوستان کی سرحدی علاقہ پنجاب میں داخل ہوا۔ جس وقت حضرت خواجہ ہندوستان میں داخل ہوئے سلطان شہاب الدین محمد غوری اور اس کی فوج پرتھوی راج سے شکست کھاکر غزنی کی طرف واپس بھاگ رہے تھے۔ ان لوگوں نے خواجہ صاحب کو منع بھی کیا کہ مسلمان کے بادشاہ کو شکست ہوگئی ہے اس لئے اس وقت جانا مناسب نہیں ہے لیکن ان حضرات نے جواب دیا کہ تم تلوار کے بھروسے پر گئے تھے اور ہم اللہ کے بھروسے پر جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ قافلہ قلعہ شادمان اور ملتان ہوتا ہوا دریائے راوی کے کنارے جا پہنچا۔
لاہور میں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پُر انوار پر قیام فرما کر برکات اور فیوض باطنی حاصل کیا اور بوقت رُخصت یہ شعر پڑھا

گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں رہنما

وہاں سے روانہ ہوکر پٹیالہ ہوتے ہوئے آپ دہلی تشریف لائے۔ پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے محل کے سامنے تھوڑا فاصلے پر رشد و ہدایت کا کام شروع کردیا۔ آپ کا اندازِ تبلیغ اتنا دل نشیں اور ذات اتنی پُر کشش تھی کہ آپ کے پاس آنے والوں میں اکثر لوگ آپ کے دستِ حق پر ایمان لے آتے۔ دھیرے دھیرے مسلمانوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوگئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں دہلی میں اسلام کے فروغ سے تہلکہ مچ گیا۔ معززین شہر کا ایک گروہ حاکم شہر کے پاس پہنچا اور عرض کی۔ ان مسلمان کی آمد کی وجہ سے ہمارے دیوتا ناراض ہوگئے ہیں۔ اگر فوراً انہیں یہاں سے نہ نکالا گیا تو ڈر ہے کہ دیوتاؤں کا قہر سلطنت کی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔ اور کھانڈے راؤ نے حکم جاری کیا کہ ان فقیروں کو دہلی سے فوراً نکال دیا جائے لیکن اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی کیونکہ حکومت کے لوگ جب عملی کاروائی کرنے آپ کے پاس آتے تو آپ کے حسن اخلاق، اعلٰی کردار اور حق یانی سے متاثر ہوکر قبولِ اسلام کر لیتے۔ کھانڈے راؤ نے ایک بدمعاش کو لالچ دے کر تیار کیا کہ وہ معتقد بن کو جائے اور قتل کردے۔
چنانچہ وہ شخص عقیدت مند بن کر حاضر ہوا۔ آپ پر اس کی آمد کا حال منکشف ہوگیا اور آپ نے فرمایا اس عقیدت مندی سے کیا فائدہ جس کام کے لئے آیا ہے وہ کیوں نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کے بدن میں لرزہ پڑ گیا اور خنجر زمین پر آ گرا اور وہ شخص بھی آپ کے دامن سے وابستہ ہو کر مسلمان ہوگیا۔ جب حضرت خواجہ نے دیکھا کہ دہلی میں کافی تعداد میں مسلمان ہو چکے ہیں تو آپ نے خلیفہء اکبر حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو رشد و ہدایت کیلئے وہاں چھوڑا اور خود مع اپنے چالیس جانثاروں کے اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں بھی اجمیر پہنچتے پہنچتے سیکڑوں آدمی آپ کے دستِ حق پرست پر ایمان لائے۔

اجمیر پہنچ کر ایک درخت کے نیچے آپ نے قیام فرمایا۔ درخت سایہ دار تھا۔ ابھی آپ بیٹھے ہی تھے کہ چند ساربانوں نے آکر منع کیا اور کہا۔ یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، بہت سی جگہیں ہیں اونٹ کہیں بھی بیٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ساربان تشدد پر اُتر آئے۔ حضرت خواجہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے لو بابا ہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں، تمہارے اونٹ ہی بیٹھیں رہیں۔ وہاں سے اٹھ کر آپ اپنے مُریدوں کے ساتھ اناساگر کے قریب پہاڑی پر ٹھہر گئے دوسرے دن ساربانوں نے لاکھ کوشش کی مگر اونٹ کھڑے نہ ہو سکے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے زمین نے انھیں پکڑ لیا ہو۔ ساربان سخت پریشان ہوئے۔ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو مجبوراً راجہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ جب ان کی زبانی اس نے یہ عجیب و غریب واقعہ سنا تو حیرت میں پڑ گیا۔ ناچار اس نے حکم دیا۔ جاؤ اس فقیر سے معافی مانگو جس کی بددعاء کا یہ نتیجہ ہے۔ ساربانوں نے جاکر عاجزی و انکساری سے معافی مانگی۔ آپ نے کمال مہربانی سے فرمایا جاؤ خدا کی مہربانی سے تمہارے اونٹ کھڑے ہو جائیں گے۔ ساربانوں نے واپس آکر دیکھا تو سب کے سب اونٹ کھڑے تھے۔ ان کی خوشی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ اولیاء کرام کتنے با اختیار ہوتے ہیں اور ولی کو جب اتنا اختیار ہے تو پھر نبی کو کتنا اختیار ہوگا۔ لٰہذا جو کہے کہ جن کا نام محمد و علی ہے وہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں، وہ گمراہ ہے۔

دہلی میں تشریف آوری

حضرت خواجہ غریب نواز اجمیر مقیم تھے تبلیغ و ہدایت میں مشغول تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا دہلی سے ایک عریضہ ملا جس میں انہوں نے اجمیر آنے اور قدم بوسی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جس کے جواب میں خواجہ صاحب نے لکھا ہم خود دہلی آئیں گے اور خواجہ صاحب خود دہلی تشریف لے گئے۔ قطب الدین صاحب کی خانقاہ میں قیام کیا۔ سلطان شمس الدین التمش کو جو اطلاع ملی تو خواجہ صاحب کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوکر گلہائے عقیدت پیش کئے۔ امراء، علماء، مشائخ، عوام و خواص سب ہی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے۔

بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ تعالی

بابا فرید الدین گنج شکر دہلی میں تھے۔ چلہ میں بیٹھے تھے۔ جب خواجہ صاحب کو معلوم ہوا چلّے میں تشریف لے گئے اور حضرت خواجہ صاحب نے بابا فرید کیلئے دعاء فرمائی۔ “خدایا ! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا۔“ غیب سے نداء آئی۔ ہم نے فرید کو قبول کیا۔ وہ وحید عصر ہوگا۔

پیر و مُرشد سے شرف ملاقات

حضرت خواجہ صاحب کے پیرو مُرشد خواجہ عثمان ہارونی نے 611ھ میں دہلی کو زینت بخشی۔ خواجہ صاحب اپنے پیرو مُرشد کی بارگاہ میں حاضر رہے اور پیر کی صحبت میں رہ کر مُرشد کی تربیت و تلقین سے مستفید ہوئے۔ سلطان شمس الدین التمش کو طالب صادق اور مومن کامل پاکر حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنے مُرشد کے فرمان کے مطابق سلطان شمس الدین کی استقامت و تربیت کیلئے ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام “گنج اسرار“ رکھا۔ اسی زمانہ میں حضرت شیخ سعدہ مصنف “گلستان و بوستاں“ بھی دہلی تشریف لائے اور دونوں بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔ حضور خواجہ صاحب کچھ دنوں اور دہلی میں قیام فرما کر اجمیر واپس آئے۔ اور رشد و ہدایت میں مشغول ہوگئے۔ اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ بھی دہلی سے تشریف لے گئے۔
کسان کی سفارش کیلئے دہلی جانا

حضرت خواجہ صاحب دوسری بار سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں 631ھ میں دہلی تشریف لے گئے۔ ایک کسان استمراری یا معیادی فرمان چاہتا تھا۔ کسان کے پیداوار کو حاکم شہر نے ضبط کر لیا تھا۔ شاہی فرمان سے کسان کی مقصد برآری ہوتی تھی۔ کسان یہ چاہتا تھا کہ حضرت ایک سفارشی خط قطب صاحب کو لکھ دیں۔ حضرت نے تھوڑی دیر سوچا پھر فرمایا اگرچہ سفارش سے تیری مقصد برآری آسان ہے مگر اللہ تعالٰی نے مجھے تیرے کام کے لئے متعین کیا ہے لٰہذا میرے ساتھ چل۔
حضرت جب روانہ ہونے لگے تو حضرت کے صاحبزادے حضرت خواجہ فخرالدین نے بھی عرض کیا کہ موضع باندن کی معافی کیلئے سلطان شمس الدین سے میری سفارش فرما دیں۔ حضرت دہلی پہنچ گئے۔ قطب صاحب نے کہا۔ حضرت کا بغیر کسی اطلاع کے کیسے آنا ہوا ؟ بعد میں دریافت کرنے پر خواجہ صاحب نے آمد کی وجہ بتائی۔ حضرت قطب صاحب خود سلطان التمش کے پاس گئے اور کسان کا معاملہ کسان کے حق میں طے کراکے اور موضع باندن کی معافی کا فرمان خواجہ فخرالدین کے حق میں لیکر حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران سب ہی آپ سے ملنے آئے۔ مگر نجم الدین صغرٰی نہیں آئے حالانکہ خراسان میں مل چکے تھے۔ خواجہ صاحب خود ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ لیکن نجم الدین صغرٰی نے کوئی التفات نہیں برتا حضرت خواجہ صاحب کو ناگوار ہوئی۔ حضرت نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ افسوس ہے کہ شیخ الاسلام کے نشے میں راہ و رسم دیرینہ اور وضع داری قدیم کو یکبارگی ترک کردیا۔ شیخ نجم الدین صغرٰی نے حضرت قطب الدین کی دہلی میں موجودگی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام مخلوق اس کی طرف رجوع ہے۔ میں برائے نام شیخ الاسلام ہوں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے میں ان کو (قطب الدین صاحب) اپنے ہمراہ لے جاؤنگا۔
خواجہ صاحب قطب صاحب کو لیکر اجمیر روانہ ہوئے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ گریاں و حیراں آپ کے پیچھے ہو لئے۔ سلطان التمس حاضر ہو کر خواجہ صاحب سے استدعا کی کہ قطب صاحب کو دہلی میں چھوڑ دیا جائے۔ لوگوں کی حیرانی و پریشانی دیکھ کر قطب صاحب کو دہلی میں چھوڑ کر خود اجمیر شریف روانہ ہوگئے۔ اور باقی دن اجمیر ہی میں رشد و ہدایت کے کام میں گزار دئیے۔
وصال مبارک 633

ھ شروع ہوتے ہی خواجہ صاحب کو علم ہوگیا کہ یہ آخری سال ہے۔ آپ نے مُریدوں کو ضروری ہدایتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ جو خلافت کے اہل تھے انہیں خلافت سے نوازا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اجمیر بلا بھیجا۔ خواجہ صاحب کی جامع مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مقرربین اور احباب حاضر تھے۔ ملک الموت تقریر دل پذیر کا موضوع تھے کہ اچانک شیخ علی سنجری سے مخاطب ہوئے اور خواجہ قطب الدین کی خلافت کا فرمان لکھایا۔ قطب صاحب حاضر خدمت تھے۔ حضور غریب نواز نے اپنا کلاہ مبارک قطب صاحب کے سر پر رکھا۔ اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا۔ خرقہء اقدس پہنایا۔ عصائے مبارک ہاتھ میں دیا۔ مصلٰی کلام پاک، نعلین مبارک مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا۔
یہ نعمتیں میرے بزرگوں سے سلسلہ بہ سلسلہ فقیر تک پہنچی ہیں۔ اب میرا آخری وقت آ پہنچا ہے یہ امانتیں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ حق امانت حتی الامکان ادا کرنا تاکہ قیامت کے دن مجھے اپنے بزرگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ پھر اور بہت سی نصیحتیں فرما کر رخصت کیا۔“633

ھ میں5 / 6/ رجب کی درمیانی شب میں حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے حُجرے میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ رات بھر دُرود اور ذکر کی آواز آتی رہی۔ صُبح ہونے سے پہلے یہ آواز بند ہوگئی۔ آخر مجبوراً دروازہ کھلا تو خدام نے دستکیں دیں اس پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ سورج نکلنے پر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں۔ اور آپ کی نورانی پیشانی پر سبز اور روشن حروف میں لکھا ہوا ہے۔ ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ (یعنی یہ اللہ کے حبیب تھے۔ اللہ کی محبت میں وفات پائی۔)
انتقال کی خبر بجلی کی طرح پورے شہر میں دوڑ گئی اور جنازہ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ فخرالدین نے نماز جنازہ پڑھائی جس حُجرہ میں آپ کا انتقال ہوا وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ جب ہی سے آپ کا آستانہ ہندوستان کا روحانی مرکز ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال یکم رجب سے 6، رجب تک بڑے اہتمام سے ہوتا ہے۔