ذکرِمعراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
از قلم
شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ
اخصِ خصائص ،اشرف فضائل و کمالات، ابہرمعجزات و کرامات میں سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسریٰ ومعراج کے ساتھ مخصوص و مشرف فرماناہے۔کیونکہ کسی نبی یا رسول کو اس سے مشرف ومکرم نہ کیا گیا اور جس مقامِ عُلیا تک آپ کی رسائی ہوئی اور جو کچھ وہاں دکھایا گیا کوئی ہستی کبھی وہاں نہ پہنچی ہے اور نہ دیکھاہے،فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَیٰ بِعَبْدِہ لَیْلاَمِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الٰی الْمَسْجِدِالْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیْہَ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرo
(پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ خاص کو رات کے تھوڑے عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک لے گیا۔ وہ جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھیں تا کہ دکھائیں ہم انہیں اپنی نشانیاں بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے)
اسریٰ کے معنی ہیں لے جانا،مطلب یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ مکرمہ سے مسجدِ اقصٰی تک لے جایا گیا، اس کا منکر کافر ہے کیونکہ یہ اللہ جل شانہ کی کتاب سے ثابت ہے۔پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جانے کا نام معراج ہے۔یہ احادیثِ مشہورہ سے ثابت ہے۔اس کا منکر مبتدع،فاسق ومخذول ہے۔دیگر جزئیات اور عجیب و غریب احوال کا ثبوت حدیثوں سے ہے۔اس کا منکر جاہل و محروم ہے۔مذہب صحیح یہی ہے کہ وجودِ اسریٰ ومعراج سب کچھ بحالتِ بیداری اور جسم کے ساتھ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ الاجمعین، تابعین اورا تباع کے مشاہیرعلماء اور ان کے بعدمحدثین ،فقہا اور متکلمین کا مذہب اسی پر ہے اس پر احادیث صحیحہ اور اخبارِ صریحہ متواتر ہیں۔
بعض اس پر ہیں کہ معراج خواب میں روح سے تھی اس کی جمع و تطبیق اس طرح کی ہے کہ یہ واقعہ متعدد مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ حالتِ بیداری میں اور دیگر اوقات خواب میں روح سے۔کچھ مرتبہ مکہ مکرمہ میں اور کچھ مرتبہ مدینہ طیبہ میں،اس کے باوجود اس پر سب کا اتفاق ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی رویا یعنی خواب وحی ہے،جس میں کسی شک و شبہہ کو دخل نہیں اور خواب میں ان کے دل بیدار ہیں اور ان کی آنکھیں پوشیدہ اس طرح پرکہ جیسے حضور مراقبہ کے وقت آنکھیں ہوتی ہیں تاکہ محسوسات میں سے کوئی چیز مشغول نہ کردے۔قاضی ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ اس کا وقوع خواب میں توطیئہ و تیسیر یعنی سمجھانے اور آسان کرنے کیلئے تھا۔
جیساکہ ابتداء نبوت میں رویائے صادقہ دیکھا کرتے تھے تاکہ وحی کابوجھ جو ایک امرِ عظیم ہے اس کی برداشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہل اور آسان ہوجائے۔چنانچہ قوائے بشریہ اس کی برداشت میں کمزور اور عاجز ہیں۔ایسے ہی معراج پہلے خواب میں واقع ہوئی تاکہ بیداری میں اسے پانے کی قوت و استعداد حاصل ہوجائے بلکہ اس کے قائلین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ خواب میں اس کا وقوع بعثت سے پہلے تھا۔(واللہ اعلم )
بعض عارفین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسرات اور معاریج بہت تھیں اور بعض نے چونتیس کہا ہے جن میں سے ایک تو بچشمِ سر بیداری سے تھی باقی خواب میں روحانی تھی (واللہ اعلم)ایک گروہ یہ کہتا کہ اسریٰ مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک جسمانی بیداری میں تھی اور وہاں سے معراج آسمانوں تک خواب میں روحانی تھی اور وہ اسی آیتِ کریمہ سے دلیل لیتے ہیں کہ اس میں مسجد اقصیٰ کو اسراء کی غایت ٹھہرایا ہے۔اگر اسراءِ جسمانی مسجداقصیٰ سے آگے ہوتی تو ذکر فرمایا جاتا۔ یہ ذکر فرمانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی و مدح میں اور حق تبارک وتعالیٰ کی قدرت کی تعظیم وتعجب میں زیادہ بلیغ تھا۔اس کا جواب یہ کہ آیتِ کریمہ میں مسجد اقصیٰ کے ذکر کی تخصیص، وقوع خلاف و نزاع اور اس میں قریش کے انکار کی بناء پر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منکرین قریش کااس کی علامتوں اور نشانیوں کو دریافت کرنے کی وجہ سے اس کا ذکر ہے اور ان کا بغرض امتحان مسجدِاقصیٰ کی صفتوں اور نشانیوں کے بارے میں باتیں معلوم کرنے کی بناء پر خصوصیت سے ذکر ہے۔جیسا کہ آگے تذکرہ آئے گا۔ اس کے بارے میں احادیث مشہور اور اخبارصحیح بکثرت وارد ہیں بلکہ آیاتِ قرآنیہ بھی ہیں۔چنانچہ سورۂ ”والنجم“میں واقعہ ہے۔ اگر چہ سورۂ والنجم میں جو کچھ واقع ہوا ہے اسے سیّدنا جبریل علیہ السلام کی رویت اور ان کے نزدیک ہونے پر کچھ حضرات محمول کرتے ہیں لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ قصّہ معراج پر محمول ہے۔
بندۂ مسکین (شیخِ محقق رحمہ اللہ) ثبۃاللہ فی مقام الصدق والیقین کہتا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا یہ اشارہ کہ لِنَرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا تاکہ ہم دکھائیں انہیں اپنی نشانیاں معراج کے ساتھ ہے۔مطلب یہ کہ مسجدِ اقصیٰ لے جایا گیایہاں تک کہ وہاں سے آسمانوں پر لے جا کر نشانیوں کو دکھایاگیا۔اس لئے کہ نشانیوں کا دکھانا اور غایت کرامات و معجزات کا ظاہر فرمانا آسمانوں میں تھااور مسجداقصیٰ میں جو واقع ہواہے اس پر انحصار نہ تھا۔مسجد اقصیٰ لے جانا وہ اس معراج کا مبداء ہے اسی بناء پر مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا اور واقعہ اگر خواب میں ہوتا تو کفّار اسے مستبعدنہ جانتے اور ضعفاء مومنین فتنہ میں نہ پڑتے نیزخواب میں واقعات و قضایا کے وقوع پذیر ہونے کو خارج میں حصرواحصاء، غیر متعارف ہے۔نیز صیغہ ”اسریٰ“کا اطلاق خواب پر نہیں کرتے اور جب اسریٰ بیداری میں ہوا تو معراج جو اس کے بعدواقع ہوا بیداری میں ہوگااور اس کے بعد خواب میں ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔جو لوگ وقوعِ معراج کو خواب میں ہونے کے قائل ہیں ان کے شبہات کے موجب چند چیزیں ہیں ۔ ایک تو حق تعالیٰ شانہ کا یہ قول ہے کہ:
وَماَجَعَلْنَاالرُّؤْیَااَلَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّافِتْنَۃًلِّلنَّاس۔
(نہیں بنایا ہم نے اس خواب کو جو آپ کو دکھایامگر لوگوں کے امتحان کے لیے)
اس آیۂ کریمہ کو بعض مفسّرین قضیہ معراج پر محمول کرتے ہے۔کیونکہ ”رویا“ نیند میں خواب دیکھنے کوکہتے ہیں، اس کاجواب یہ کہ یہ ”رویا“یا توقضیئہ حدیبیہ کے رؤیاپر یا واقعہ بدر کے رؤیا پر محمول ہے اور اہلِ علم رویت بصریٰ کے معنی میں بھی رؤیا استعمال کرتے ہیں اور وہ ”متنّبی“شاعر کے اس قول سے استناد کرتے ہیں کہ
ورؤیاک احلافی للعیون من الغمص
اور بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ چونکہ معراج رات میں واقعہ ہوئی اس بناء پر اس کا نام رؤیارکھا اور یہ جوحدیث میں آیا ہے کہ فاستیقظت (تو میں بیدار ہوگیا)اس میں بھی دلیل ہے کہ اسریٰ و معراج نیند میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ احتمال رکھتاہے کہ یہ اس نیند سے بیداری مراد ہے جوفرشتے کے حاضر ہونے سے پہلے تھی۔ مطلب یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں تھے کہ فرشتے نے حاضر ہو کربیدارکیا اور براق پر سوار کیا اور لے گئے اور اگر بیداری سے مراد قضیہ معراج کے مکمل ہونے کے بعد کی نیند سے ہے جیسا کہ واقع ہوا ۔ثم استیقظت وانافی المسجدالحرام(پھر میں بیدار ہوا میں مسجد حرام میں تھا)تو ممکن ہے کہ استیقظت بمعنی اصبحت یعنی میں نے صبح کی ہے ،یا یہ بیداری اس دوسری نیند سے ہے جو بیت الحرام آنے کے بعد واقع ہوئی ہے اور “اسری” تمام شب کی نہ تھی بلکہ رات کے مختصر حصّے میں تھی۔
بعض محققین کہتے ہیں کہ “استیقاظ”سے مراد افاقہ ہوشیاری اور اس حال سے اپنے حال پر آنا ہے چونکہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملکوت سمٰوات والارض کے عجائب و غرائب کا مطالعہ فرمایا اور ملاء اعلیٰ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیوں اور اسرارنا متناہی کا مشاہدہ کیا آپ کی حالت سخت ہوگئی تھی اور آپ کا باطن، نیند کی حالت کے مشابہ ہوگیا تھا۔اہلِ علم فرماتے ہیں کہ مشاہدۂ ملکوت اگر چہ بیداری میں ہے مگر وہ ایک قسم کی عالمِ محسوسات سے غیبویت ہے اس کو وہ ”بین النوم والیقظ“ یعنی نیند و بیداری کی درمیانی حالت سے تعبیر کرتے ہیں، در حقیقت وہ حا لتِ بیداری میں ہے لیکن غیبت کے عارض ہونے کے سبب اور اس کے زائل ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی اسے نیند سے تعبیرکردیتے ہیں اور ایک روایت میں وانا بین النائم والیقطان(میں سونے اور جاگنے والے کی حالت کے مابین تھا)بھی آیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ نوم سے مراد سونے کی مانند اور کروٹ سے لیٹاہے ۔
اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بین انا نائم فی الحجر وربما قال مضطجع (حجر اسود کے قریب میں سونے کے قریب قریب تھااور بعض نے روایت کیا میں کروٹ سے لیٹا ہوا تھا)باوجود اس کے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس حال کامشاہدہ نہیں کیا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنا۔ کیو نکہ قصّہ معراج ہجرت سے پہلے کا ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بعد ہجرت بار گاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اس وقت بھی وہ سات آٹھ سال کے بچّے تھے جیسا کہ اہلِ علم تصریح کرتے ہیں یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ہے کہ کہا مافقد جسد محمد(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر بستر مبارک سے گم نہ ہوا)یہ ان لوگوں کے دلائل ہیں جو کہتے کہ اسریٰ خواب میں ہوئی۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھیں اور نہ ہی ضبط و حفظ کی عمرمیں تھی بلکہ ممکن ہے کہ پیدا بھی نہ ہوئی ہوں،اس قول کے بموجب جو کہتے ہے کہ اوّل اسلام میں بعثت سے ایک یا ڈیڑھ سال کے بعداسریٰ ہوئی (واللہ اعلم)مقصود یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث اُن دوسری حدیثوں پر راجح نہیں جو بطریق مشاہدہ حدیث روایت کرتے ہیں اور حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں واقع ہوا کہ مافقدجسدمحمد (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر گم نہیں ہوا)اس سے استدلال بلاشبہ خطا ہے اور جو آیا ہے کہ ماکذب الفوادمارای(دل نے نہیں جھٹلایا جو آنکھ نے دیکھا)یہ خواب پر دلالت نہیں کرتا اس لیے کہ مراد یہ ہے کہ دل نے آنکھ کو غیر ِ حقیقت کا وہم نہیں ڈالابلکہ اس کی رویت کی تصدیق کی اور جس چیز کو آنکھ نے دیکھا دل نے اس کا انکار نہ کیا۔بدلیل مازاغ البصرو ما طغی(نہ آنکھ جھپکی نہ بے راہ ہوئی)اب رہا فلسفیوں کے اباطیل و مزخرفات سے تمسک واستدلال کرنا کہ “طبعی طورپر جسم ثقیل بلندی کی جانب نہیں جاسکتا اور آسمان میں خرق و التیام(پھٹنااور ملنا) جائز نہیں”وغیرہ،یہ باتیں طریقہ اسلام میں باطل ولغو ہیں۔
ایک جماعت اہل اشارات و تاویلات کی صورت کو معانی پر محمول کرتی ہے یہ معراج کو روحانی تصور کرتی ہے۔ان کے اس قیام پر کہ حشر کو روحانی کہتے ہیں اس معنی میں نہیں کہ روح کو خواب میں معراج ہوئی بلکہ اس معنی میں کہ معراج،ترقی کے مقامات پر احوال اور عروج و کمال کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ وہ جبریل علیہ السلام روحِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور براق سے آپ کا نفس مبارک جو روح کی سواری ہے،جو اپنی خاصیت میں سر کش ہے اور رام نہیں ہوتا مگرروحانی قوت سے اور آسمان سے مراد مقام قرب اور سدرۃالمنتہیٰ سے انتہائی مقامات ہیں، ان کے اسی قیاس کے مطابق یہ فرقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّے میں فرعون،عصاء،نعلین اور وادی مقدّس کی تاویلات کرتا ہے،اگر ان صورتوں کا اثبات کریں (یعنی الفاظ وکلا م کے ظاہری مطلب ومفہوم کو برقرار رکھیں) پھروہ ان کو معانی کی طرف اشارہ کریں تو علم و معرفت میں ایک چیزہے اور اس کا کوئی مرتبہ ہے۔ان کے قیاس پر کہ حشر جسمانی و روحانی کے درمیان جمع کریں۔ اگر صرف معانی کا اعتقاد کریں اور الفاظ و صور کے قائل نہ ہوں تو یہ بجائے خود کفر و الحاد ہے اور یہ مذہب باطنیہ ہے۔
اس مسکین(یعنی شیخِ محدث رحمہ اللہ) کے ایمانی ذائقہ پریہ طریقہ اولیٰ بھی استبعاد اور انکار کی طرف مشیر اور موہم ہے گویاانہوں نے وجودِ صور کو جب دائرۂ امکان عادی سے بعید جانا تو تاویل کی طرف گھوم گئے۔حالانکہ ایمان اس کے سننے اور ماننے ہی کا نام ہے جیسا کہ اس واقعہ معراج کے سلسلے میں سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا اور اسی دن سے آپ ”صدیق“ کے نام و لقب سے موسوم ہوئے اور چند ایک ضعیف الاعتقادمسلمان دائرۂ ایمان سے نکل گئے۔علم الیقین،عین العین سے پہنچتاہے۔ جب بھی کلام کر تااور زبان وتاویل اور اس کے امکان کا اثبات دلائل کلامیہ سے کھولنا عقل اور اس کے حیلوں میں گرفتار ہونا ایمان وبندگی سے بعید ہے اور ہم ایمانداروں کو خدااو روسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے، اگرجو کچھ ہم کسی سے سنیں گے یا کریں گے تو یہ فرقہ اسے تقلید کہتا ہے۔وہ یہ نہیں جانتے کہ تقلید کس کی ہے؟
یہ تقلید اس کی ہے جس کی تحقیق معجزات قاہرہ سے ثابت ہے اور محقق کی تقلید عین تحقیق ہے اور حقیقتاَ یہ تقلید بھی نہیں یہ صراطِ مستقیم کا اتباع ہے۔مقلد تو تم ہوجو عقل کی تقلید کرتے ہو اور اس کے کہے پر چلتے ہو۔جس کی تحقیق ثابت شدہ نہیں ہے اور اس کی راہ میں سراسر شکوک و شبہات ہیں فلاسفر اصلیت میں خود انبیاء علیہم السلام کے منکر ہیں۔ہمیں ان سے کیا کام، ان کا نبی تو ان کی عقل ہے اور ان متکلمین کو کیا ہوگیا ہے کہ باوجود راہ راست کے وہ گم گشتہ ہیں اور راہ میں گفتگوشبہہ اور جدال پیدا کرتے ہیں۔اگر چہ ان کی نیت، فلاسفر کی مخالفت اور ان کا رد ہے لیکن سلوکِ راہ میں عقل اور اس کے پیروؤں کی موافقت کرتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~
No comments:
Post a Comment