Tuesday, June 14, 2011

سلطان الہند، عطاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم)غریب نواز خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ


سلطان الہند، عطاء رسول، خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ موضع سنجر خراسان 14رجب 537ھ میں پیدا ہوئے۔ سنجر قندہار سے پورب جانب، 24 گھنٹے کے راستے میں واقع ہے۔ یہ گاؤں اب تک موجود ہے۔ اسی کو سبحستان بھی کہتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت غیاث الدین حسن ہے۔ یہ آٹھویں پشت میں عارف حق موسٰی کاظم علیہ الرحمۃ کے پوتے ہوتے ہیں۔

والدہ محترمہ کا نام بی بی ام الورع ہے اور بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں جو چند واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے آپ والدہ کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
آپ کی والدہ کا بیان ہے کہ جس وقت میرا نور نظر لخت جگر میرے شکم میں آیا میرا سارا گھر خیروبرکت سے معمور ہو گیا۔ ہمارے دشمن بھی شفقت و محبت سے پیش آنے لگے۔ کبھی کبھی مجھے بہترین خواب نظر آتے اور جس وقت سے میرے رب نے آپ کے جسم اطہر میں جان ڈالی تو اس وقت سے معمول ہو گیا تھا کہ آدھی رات سے صُبح تک میرے شکم سے تسبیح و تہلیل کی آواز آتی تھی میں اس مبارک آواز میں گم ہو جایا کرتی تھی جب آپ کی ولادت ہوئی میرا گھر نور سے بھر گیا۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت غیاث الدین حسن ایک بڑے جید عالم تھے۔ خواجہ صاحب نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرما لیا اور اس کے بعد سنجر کے ایک مکتب میں داخلہ ہوا۔ آپ نے یہاں ابتدائی طور سے تفسیر، فقہ اور حدیث کی تعلیم پائی اور تھوڑی ہی عرصے میں آپ نے تمام علوم میں مہارت حاصل کرلیا۔

والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا

سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ بچپن ہی میں اپنے والد کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ ابھی آپ کی عمر 15 سال بھی نہ ہوئی تھی کہ والد جاں بحق ہوگئے۔ والد کا وصال شعبان المکرم 544ھ میں ہوا۔ (میرالعارفین صفحہ5)
والد کے ترکہ میں سے حضرت خواجہ کو ایک پن چکی اور ایک باغ۔ یہ دو چیزیں ملیں جس کی آمدنی سے آپ گزر اوقات فرماتے۔ ایک مجذوب نے زندگی میں انقلاب ڈال دیا
سرکار خواجہ اپنے باغ کی دیکھ بھال خود فرماتے تھے۔ ایک دن اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے کہ اچانک ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں داخل ہوگئے۔ خواجہ بزرگ کو بچپن ہی سے صوفیوں اور درویشوں سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ اس لئے نہایت ہی خنداں لبی سے ان کا استقبال کیا اور بہت ہی منکسر المزاجی سے پیش آئے اور انگور کا ایک خوشہ توڑ کر حضرت ابراہیم کے حضور پیش کیا۔ حضرت ابراہیم تو سمجھ ہی رہے تھے کہ حسن کو رہنما کی تلاش ہے جو ان کو حق تک پہنچا دے اور آپ اچھی طرح جان رہے تھے کہ آج کا یہ انوکھا باغبان کل تک لوگوں کے دلوں میں باغبانی کرے گا اور جانے کتنوں کی روحانی پیاس بجھائے گا اور لاکھوں کو مئے توحید کو متوالا بنا دے گا اور جو بھی اس کی ایک نظر سے جام پی لے گا وہ عشق الٰہی میں سرمست ہو جائے گا۔
اس لئے آپ نے کھل کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کو چبا کر حضرت خواجہ کو عنایت فرما دیا۔ اب کیا تھا۔ کھاتے ہی دل کی دنیا بدل گئی حجابات اٹھتے دکھائی دے رہے تھے۔
حضرت ابراہیم تو تشریف لے گئے لیکن سیدنا خواجہ غریب نواز نے اپنا باغ فروخت کرکے فقراء مساکین میں تقسیم فرما دیا اور خود تلاش حق کیلئے چل پڑے۔

حق کی تلاش

آپ سب سے پہلے خراسان تشریف لائے۔ بعدہ سمر قندو بخارا کا سفر فرمایا۔ آخر الذکر دونوں مقامات میں 544ھ سے 550ھ تک علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بغداد، سمر قند اور بخارا اسلامی علوم و فنون کے مرکز تھا۔ مولانا حسام الدین بخاری صاحب شرع الاسلام مولانا اشرف الدین جیسی مشہور اور جلیل القدر ہستیوں سے حضرت خواجہ سے علم حاصل کیا۔ (احسن المیر صفحہ 134)

روانگی حرمین شریفین

بغداد مقدس سے آپ حرمین تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ نے 551ھ میں کیا۔

مُرشد کامل کی خدمت میں

قریہ ہارون ایک چھوٹی سی بستی تھی لیکن خدا کی شان کہ یہ چھوٹی سی بستی نور و نکہت میں بسی ہوئی تھی۔ وہاں ایک عاشق رسول حضرت خواجہ عثمان ہارونی رونق افروز تھے اور تمام بستی خیروبرکت سے معمور تھی۔
حضرت عثمان مشائخ کبار میں سے تھے اور آپ کا فیض دور دور تک جاری تھا۔ متلاشیان حق اور حاجت مندان گوہر مراد سے اپنا دامن بھر لیتے تھے۔ جس وقت خواجہ بزرگ کی نظر اپنے شیخ کامل پر پڑی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ انہیں اب چشمہ آب بقا مل گیا تھا۔ حضرت خواجہ نے خواجہ عثمان ہارونی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ حضرت خواجہ مرید ہونے کا واقعہ خود ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: “میں ایک صحبت میں جس میں جلیل القدر بزرگ جمع تھے نہایت ادب سے حاضر ہوا اور سر نیاز زمین ادب پر جھکا دیا۔ حضور نے حکم فرمایا۔ “دو رکعت نماز ادا کرو“ میں نے تعمیل حکم کی پھر حکم ہوا “رو بقبلہ بیٹھ جاؤ“ میں ادب سے رو بقبلہ بیٹھ گیا۔ پھر ارشاد فرمایا۔ “سورہ بقرہ کی تلاوت کرو“ میں نے ادب کے ساتھ تلاوت کی۔ پھر حکم ہوا۔ “ساٹھ مرتبہ سبحان اللہ پڑھو“ میں نے پڑھا۔ پھر حضور والا نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زبانِ مبارک سے یہ ارشاد فرمایا۔
“میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا۔“ ان تمام امور کے بعد حضرت شیخ نے ایک خاص قسم کی ٹوپی میرے سر پر رکھی جو “کلاہ چہارتر کی“ کہلاتی ہے۔ اور چغہ مبارک مجھے پہنا دیا۔ پھر فرمایا۔ “بیٹھ جاؤ“ میں فوراً بیٹھ گیا اور پھر حکم ہوا “ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو“ جب میں اس سے فارغ ہوا تو فرمایا۔ “ہمارے مشائخ کے یہاں صرف ایک دن رات کا مجاہدہ ہے۔ اس لئے جاؤ ایک دن رات کا مجاہدہ کرو۔“ یہ سن کر میں نے ایک دن رات پوری عبادتِ الٰہی اور نماز میں گزار دی۔ دوسرے دن خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوسی کی دولت حاصل کی اور حکم کے مطابق بیٹھ گیا۔
ارشاد فرمایا “ادھر دیکھو“ آسمان کی طرف اشارہ کرکے۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ کہاں تک دیکھتا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ عرش معلٰی تک۔ پھر ارشاد ہوا۔ “نیچے دیکھو۔“ میں نے نیچے دیکھا تو پھر وہی فرمایا۔ “کہاں تک دیکھتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا۔ تحت الثرٰی تک۔ پھر حکم ہوا ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو میں نے حکم کی تعمیل کی تو پھر حضرت نے ارشاد فرمایا۔ “آسمان کی طرف دیکھو۔“ میں نے عرض کیا۔ حجاب عظمت تک صاف نظر آ رہا ہے۔ فرمایا “آنکھیں بند کرو۔“ میں نے آنکھیں بند کرلیں پھر حکم دیا۔“کھول دو“۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے بعد آپ نے دو انگلیاں میرے سامنے کیں اور دریافت فرمایا۔ کیا دکھائی دیتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا۔ اٹھارہ ہزار عالم میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جب میری زبان سے یہ جملہ ادا ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ “پس اب تیرا کام ہوگیا۔“

فائدہ :۔ یہ تو ایک ولی کے علم کا حال ہے تو پھر نبی کے علم کا حال کیا ہوگا۔ اور کیا دنیا خواجہ عثمان ہارونی کے ان دو انگلیوں کا جواب دے سکتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ تو نبی کے پنجاب رحمت کا جواب دنیا کہاں سے لا سکے گی۔

انگلیاں تھیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

بعد ازاں ایک اینٹ کی طرف جو سامنے پڑی تھی اشارہ کرکے فرمایا “اس کو اٹھا“ میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے کچھ دینار نکلے جن کے متعلق حکم ہوا۔ انھیں لے جا اور قفراء و مساکین میں تقسیم کردے۔ چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی اور خدمت بابرکت میں حاضر ہوا ارشاد ہوا۔ “چند روز ہمارے صُحبت میں رہو۔“ عرض کیا حاضر ہوں۔

بیس سال تک پیرِ کامل کی خدمت میں

سیدنا خواجہ غریب نواز اب اپنے پیرومرشد کے اس قدر متعدد اور شیدائی ہوگئے تھے کہ وقت سفر اور حضر اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر رہتے۔ پیر کا بستہ، توشہ، پانی کا مشکیزہ دیگر ضروری سامان اپنے سر اور کندھوں پر رکھ کر ہم سفر ہوتے تھے۔ کامل بیس سال تک اپنے پیرو مُرشد کی خدمت کرکے معرفت و حقیقت کی تمام منزلیں طے فرمالیں اور فقیری کے رموز و اسرار سے واقف ہوگئے۔

پیر و مُرشد کے ساتھ حرمین کی حاضری

خواجہ خواجگان حضرت معین الدین حسن سنجری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:۔ بعد ازاں میں چند روز پیرومرشد کی خدمت میں رہا۔ پیر حضرت نے اس دعاگو کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر اختیار کیا۔ الحاصل ایک شہر میں پہنچے یہاں ایک جماعت درویشوں کی دیکھی جو شراب عشق الٰہی میں سرشار عالم سکر و حیرت میں از خور رفتہ تھی۔ چند دن اُن کی صُحبت میں رہنا ہوا مگر وہ حضرات عالم صحو میں نہ آئے۔ (انیس الارواح)

بعد ازاں مکہ معظمہ کی راہ لی۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر زیارت و طواف خانہء کعبہ سے مشرف ہوئے۔ حضرت خواجہ فرماتے ہیں:۔ پیرو مُرشد نے یہاں بھی میرا ہاتھ پکڑا۔ اور حق تعالٰی کے سپرد کیا اور زیر ناؤ دان خانہء کعبہ دعاءگو ہوئے۔ مناجات کی ندا آئی۔ “ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔“ بعد ازاں مدینہ منورہ آئے اور حرم نبوی میں حاضری دی۔ مجھ سے فرمایا۔ “سلام کر“ میں نے سلام عرض کیا۔ آواز آئی وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر (یہاں سے نبی کی حیات کا مسئلہ حل ہوگیا) اگر نبی مر کر معاذاللہ مٹی میں مل گئے ہوتے جیسا کہ فرقہ باطلہ کا عقیدہ ہے تو جواب ناممکن تھا۔ حدیث شریف میں ہے ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللہ حیی یرزق (بیشک اللہ تعالٰی نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو حرام کر دیا ہے کہ وہ کھائے تو اللہ کا نبی زندہ ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔)
یہ آواز سن کر مُرشد نے فرمایا۔ اب تو درجہ کمال کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے پیر کے ہمراہ بخارا شریف تشریف لے گئے۔ وہ بخارا کے صدر المشائخ سے ملے جن کے بارے میں خواجہ بزرگ فرماتے ہیں۔ یہ بزرگ دوسرے عالم میں تھے ان کی تعریف و توصیف حّد بیان سے باہر ہے۔


سیوستان میں آمد
اس سفر کے بارے میں حضرت خواجہ فرماتے ہیں۔ ایک وقت عثمان ہارونی کے ہمراہ سیوستان کے سفر میں تھا۔ یہاں صومعہ (گرجا گھر) میں ایک بزرگ تھے ان بزرگ کا نام صدر الدین محمد سیوستان تھا۔ بڑے مشغول بزرگ تھے چند دن ان کے پاس رہنا ہوا جو شخص ان کے صومعہ میں آتا محروم نہ جاتا۔ عالم غیب سے کوئی چیز لاکر دیتے اور کہتے اس درویش کو ایمان کی سلامتی کی دعاء سے یاد کرو کیونکہ اگر گور میں اپنا ایمان سلامت لے گیا تو بڑا کام کیا۔“ یہ بزرگ جب ہیبت گور کا تذکرہ سنتے تو مثل بید کے کانپنے لگتے۔ آنکھوں سے خون کے آنسو پانی کے چشمے کی طرح جاری ہو جاتے۔ سات دن تک روتے رہتے اور اپنی آنکھیں ہوا میں کھول کر کھڑے ہو جاتے۔ ہمیں ان کے رونے سے رونا آ جاتا اور کہتے یہ کیسا بزرگ ہے۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف منہ کرکے کہتے۔ “اے عزیزان ! مجھے مرگ در پیش ہے جس کا ملک الموت حریف ہو اور قیامت جیسا دن پیش نظر ہو اس کو سونے اور خوش دلی اور خندگی سے کیا کام اور کیسے کسی کام میں مشغول ہونا اچھا معلوم ہو۔ (دلیل العارفین)

پھر انہوں نے فرمایا۔ اے عزیزان ! اگر تمہیں مٹی کے نیچے سونے والے جواسیر موردمار ہیں اور زندان خاک میں محبوس ہیں کا حال ذرہ بھر معلوم ہو جائے تو نمک کی طرح پانی ہو جاؤ۔

اس کے بعد آپ نے یہ حکایت بیان کی۔ ایک وقت میں نے بصرہ میں ایک بزرگ کو دیکھا۔ بہت مشغول تھے میں اور وہ بزرگ گورستان میں ایک قبر کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ بزرگ صاحب کشف تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ اس قبر کے مُردے پر سخت عذاب ہو رہا ہے۔ دیکھ کر وہ بزرگ نعرہ مار کر واصل بحق ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں مثل نمک کے پگھل کر پانی ہو کر ناپید ہو گئے۔ جیسا خوف میں نے ان بزرگ میں دیکھا ویسا نہ آج تک کسی میں دیکھا نہ سنا۔ پھر فرمایا، میں ہیبت گور کی وجہ سے گوشہء تنہائی میں ہوں تم سے آج تیس سال کے بعد گفتگو کی ہے اور یہ حکایت بیان کی ہے۔
“پس اے عزیزان ! مخلوق کے ساتھ وقت گزارنے سے یادِ حق میں وقت صَرف کرنا بہتر ہے ۔ کیونکہ جتنی دیر لوگ خلق میں مشغول رہتے ہیں۔ خدا سے باز رہتے ہیں۔ پس صحبت خلق سے باز رہنا چاہئیے اور زادِ راہ کا انتظام کرنا چاہئیے۔ ہم سب کو وہ دن درپیش ہے۔ ایمان سلامت لے جانا چاہئیے۔ یہ کہہ کر دو خرمے میرے (خواجہ غریب نواز) ہاتھ میں دئیے اور اٹھ کر چلے گئے۔ ان پر گریہ طاری ہوا اور عالم تحّیر میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد خواجہ غریب نواز اپنے پیر کے ہمراہ دمشق اور سنجار ہوتے ہوئے بغداد پہنچے، جس کو خود خواجہ کی زبان سنئیے۔
بعد ازاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ، بغداد واپس تشریف لاکر معتکف ہوگئے اور دعاء گو سے ارشاد فرمایا۔ “اس مقام سے چند روز تک باہر نہ آؤں گا مگر تو چاشت کے وقت آیا کر کہ تجھ سے ترغیب فقر بیان کروں تاکہ مُریدوں اور فرزندوں کیلئے میرے بعد یادگار ہو۔“ یہ فقیر روزانہ حاضر خدمت ہوتا رہا۔ جو کچھ مُرشدوں کی زبان فیض ترجمان سے سنتا قلمبند کر لیتا تھا۔“ اس طرح خواجہ غریب نواز نے ایک رسالہ مرتب کیا جو اٹھائیس مجلسوں پر مُشتمل ہے۔ اس رسالہ کا نام “انیس الارواح“ رکھا۔

پیرو مُرشد سے رُخصت ہونا

خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اپنے پیرِ کامل خواجہ عثمان ہارونی سے بغداد میں رخصت ہوئے۔ اوش ہوتے ہوئے اصفہان پہنچ کر ولی کامل شیخ محمود اصفہانی سے ملے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو مُرید کیا۔ اصفہان سے مکہ معظّمہ پہنچے۔ ساتھ میں مُریدِ خاص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی تھے۔ حج ادا فرمایا اور مدینہ منورہ پہنچے۔

مژدہ جانفزا

انیس بیکساں، چارہ ساز درد منداں رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی دربار سے بشارت ہوئی۔ اے معین الدین ! تُو میرے دین کا معین ہے۔ میں نے ہندوستان کی ولایت تجھ کو عطا کی، تو اجمیر جا۔ سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو جنت کا ایک انار عطا فرمایا۔ حضرت خواجہ بصد احترام و ادب روضہء پاک سے باہر نکلے۔ آپ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ جب وجدانی کیفیت نے قلب کو سکون بخشا تو فرمانِ رسالت یاد آیا مگر متحّیر تھے کہ ہندوستان کدھر ہے اور کہاں ؟ اس فکر میں تھے کہ شام ہوئی۔ سورج ڈوب گیا۔ بعدِ نماز عشاء آنکھ لگی اور آپ سو گئے۔ عالمِ خواب میں تمام ہندوستان کا نقشہ اور اجمیر کا منظر آپ کے سامنے تھا۔ جب آنکھ کھلی سجدہء شکر ادا کیا اور روضہء اطہر پر حاضر ہوکر تحفہء درود و سلام پیش کرکے ہندوستان کی جانب روانہ ہوگئے۔

دوبارہ پیرو مُرشد کی بارگاہ میں

بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے رُخصت حاصل کرکے خواجہ غریب نواز واپس بغداد شریف پہنچے۔ ان دنوں آپ کے پیرو و مُرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی بغداد میں قیام پذیر تھے۔ خدمت میں حاضر ہوکر خواجہ بزرگ نے ارشاد نبوی سے مطلع فرمایا۔ فرطِ مسرت سے آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی اور آپ نے فرمایا۔ ہم معتکف ہوتے ہیں۔ اور حُجرے سے باہر نہیں آئیں گے۔ ملاقات کے آخری روز حضرت شیخ خواجہ صاحب کو اپنا عصائے مبارک، مصلٰی، خرقہء عظمٰی عطا فرمایا۔ نیز وہ تمام تبرکات مصطفوی جو خاندانِ چشت میں سلسلہ بہ سلسلہ اب تک چلے آ رہے تھے۔ آپ کو سُپرد کرکے فرمایا، لیجئے یہ میری یادگار ہیں۔ ان کو اپنے پاس بحفاظت رکھنا۔ جس طرح میں نے رکھا اور تم جس کو اہل سمجھنا دینا۔ فرزند ! خلف وہی ہے جو اپنے پیر کے ارشادات کو اپنے ہوش بگوش میں جگہ دے اور اِس پر عمل کرے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے مُرید حضرت خواجہ معین الدین کو رُخصت فرمایا اور خود عالم تحّیر میں مشغول ہوگئے۔

پیرو مُرشد سے رخصت ہوکر بغداد سے روانہ ہوئے۔ اثنائے سفر میں بدخشاں، ہرات اور سبزوار بھی گئے۔ بلخ سے گزرتے ہوئے آپ نے ولی کامل شیخ احمد خضرویہ علیہ الرحمہ کی مقدس خانقاہ میں چند روز قیام فرمایا۔ حضرت خواجہ کی عادت کریمہ تھی کہ سفر میں اپنے ساتھ تیر و کمان چقماق اور نمکدان ضرور رکھتے تھے تاکہ کسی طرح تکلیف نہ ہو۔ جب بھوک زیادہ لگتی جنگل سے کوئی پرند شکار کرکے طعام فرما لیتے۔ ایک دن آپ نے ایک کلنگ کا شکار کرکے خادم کو ذبح کرکے دیدیا تاکہ بھون لے اور خود نماز میں مشغول ہو گئے، جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے اس کے قریب ہی ایک مشہور فلسفی اور حکیم کی رہائش گاہ تھی۔ ان کا مکتب جاری تھا اور حُصول تعلیم کیلئے دور دراز سے طلباء آتے رہتے تھے۔ ان حکیم صاحب کا نام ضیاء الدین تھا۔ انہیں اپنے علم فلسفہ پر بڑا ناز تھا۔ اسی لئے اولیاء کا ذکر بڑے مضحکہ خیز انداز میں کیا کرتے تھے جس کا لوگوں پر بڑا اثر پڑتا تھا۔ جہاں خواجہ صاحب نماز پڑھ رہے تھے وہاں سے حکیم گزرا۔ جونہی حضرت خواجہ پر نظر پڑی ٹھٹھک کر رہ گیا۔ جب خواجہ صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو اس نے آپ کی پیشانی میں کچھ ایسا جلوہ دیکھا کہ فلسفہ و حکمت کی تمام باتیں بھول گیا۔ اور سلام کرکے ادب سے بیٹھ گیا۔ اتنے میں خادم نے کلنگ بھون کر پیش کیا حضرت خواجہ نے ازراہ کرم اس کی ایک ٹانگ حکیم صاحب کو دی اور دوسری ران کا گوشت خود تناول فرمانے لگے۔ باقی خادم کے حوالے کردیا۔

حکیم ضیاء الدین نے ابھی پہلا ہی لقمہ کھایا تھا کہ باطل کا پردہ چاک ہوگیا اور حقیقت معرفت کے آئینے سامنے آ گئے۔ عقل و فلسفہ کے سبب جو بُرے خیالات ان کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے سب نکل گئے۔ قلب پر ایسا خوف طاری ہوا کہ بے ہوش ہو گئے خواجہ صاحب نے ایک لقمہ ان کے منہ میں ڈال دیا۔ جونہی یہ لقمہ حلق سے نیچے اُترا ہوش میں آ گئے۔ اپنے گذشتہ خیالات پر نادم ہوئے اور اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ حضرت خواجہ کے حلقہء ارادت میں داخل ہوگئے۔ جب خواجہ صاحب بدخشاں پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات ایک معمر بزرگ سے ہوئی جن کی عُمر ایک سو چالیس سال تھی اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی اولاد سے تھے۔ ایک پیر کٹا ہوا تھا۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ مجاہدہ نفسانی میں مشغول تھا کہ ایک دن خواہش نفسانی نے مجبور کیا اور یہ پاؤں جو کٹا ہوا ہے آگے بڑھایا ہی تھا کہ غیب سے نداء آئی۔
اے مدعی ! یہی وعدہ تھا جو فراموش کردیا۔ بس یہ آواز سن کر بے قرار ہوگیا اور اس پاؤں کو کاٹ کر پھینک دیا۔ اس واقعے کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن یہ خیال دل میں بار بار آتا ہے کہ کل قیامت کے دن درویشوں کے سامنے کیا منہ دکھاؤں گا۔ اس کے بعد ہزار پہنچ کر خواجہ غریب نواز حضرت عبیداللہ انصاری کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوئے۔ اس مزارِ مبارک پر ہیبت خداوندی کا نزول تھا، اس لئے آپ بہت مُحتاط رہتے تھے۔ وہاں آپ نے کافی عرصہ مجاہدہء نفس میں گزارا۔ رات بھر عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے اور اکثر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے۔ جب ہرات میں آپ کے شہرت بڑھ گئی اور لوگ جوق در جوق حاضر ہونے لگے تو آپ نے وہاں سے کوچ فرمایا اور سیدھے ہندوستان کی طرف چل پڑے۔
ہندوستان میں خواجہ صاحب کی تشریف آوری

سبزوار سے روانہ ہوکر آپ غزنی پہنچے۔ سلطان المشائخ عبدالواحد سے ملاقات فرمائی۔ آپ کے ساتھ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت محمد یادگار اور حضرت خواجہ فضرالدین گردیزی بھی تھے۔ اللہ والوں کا یہ نورانی قافلہ ہندوستان کی سرحدی علاقہ پنجاب میں داخل ہوا۔ جس وقت حضرت خواجہ ہندوستان میں داخل ہوئے سلطان شہاب الدین محمد غوری اور اس کی فوج پرتھوی راج سے شکست کھاکر غزنی کی طرف واپس بھاگ رہے تھے۔ ان لوگوں نے خواجہ صاحب کو منع بھی کیا کہ مسلمان کے بادشاہ کو شکست ہوگئی ہے اس لئے اس وقت جانا مناسب نہیں ہے لیکن ان حضرات نے جواب دیا کہ تم تلوار کے بھروسے پر گئے تھے اور ہم اللہ کے بھروسے پر جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ قافلہ قلعہ شادمان اور ملتان ہوتا ہوا دریائے راوی کے کنارے جا پہنچا۔
لاہور میں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پُر انوار پر قیام فرما کر برکات اور فیوض باطنی حاصل کیا اور بوقت رُخصت یہ شعر پڑھا

گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں رہنما

وہاں سے روانہ ہوکر پٹیالہ ہوتے ہوئے آپ دہلی تشریف لائے۔ پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے محل کے سامنے تھوڑا فاصلے پر رشد و ہدایت کا کام شروع کردیا۔ آپ کا اندازِ تبلیغ اتنا دل نشیں اور ذات اتنی پُر کشش تھی کہ آپ کے پاس آنے والوں میں اکثر لوگ آپ کے دستِ حق پر ایمان لے آتے۔ دھیرے دھیرے مسلمانوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوگئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں دہلی میں اسلام کے فروغ سے تہلکہ مچ گیا۔ معززین شہر کا ایک گروہ حاکم شہر کے پاس پہنچا اور عرض کی۔ ان مسلمان کی آمد کی وجہ سے ہمارے دیوتا ناراض ہوگئے ہیں۔ اگر فوراً انہیں یہاں سے نہ نکالا گیا تو ڈر ہے کہ دیوتاؤں کا قہر سلطنت کی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔ اور کھانڈے راؤ نے حکم جاری کیا کہ ان فقیروں کو دہلی سے فوراً نکال دیا جائے لیکن اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی کیونکہ حکومت کے لوگ جب عملی کاروائی کرنے آپ کے پاس آتے تو آپ کے حسن اخلاق، اعلٰی کردار اور حق یانی سے متاثر ہوکر قبولِ اسلام کر لیتے۔ کھانڈے راؤ نے ایک بدمعاش کو لالچ دے کر تیار کیا کہ وہ معتقد بن کو جائے اور قتل کردے۔
چنانچہ وہ شخص عقیدت مند بن کر حاضر ہوا۔ آپ پر اس کی آمد کا حال منکشف ہوگیا اور آپ نے فرمایا اس عقیدت مندی سے کیا فائدہ جس کام کے لئے آیا ہے وہ کیوں نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کے بدن میں لرزہ پڑ گیا اور خنجر زمین پر آ گرا اور وہ شخص بھی آپ کے دامن سے وابستہ ہو کر مسلمان ہوگیا۔ جب حضرت خواجہ نے دیکھا کہ دہلی میں کافی تعداد میں مسلمان ہو چکے ہیں تو آپ نے خلیفہء اکبر حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو رشد و ہدایت کیلئے وہاں چھوڑا اور خود مع اپنے چالیس جانثاروں کے اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں بھی اجمیر پہنچتے پہنچتے سیکڑوں آدمی آپ کے دستِ حق پرست پر ایمان لائے۔

اجمیر پہنچ کر ایک درخت کے نیچے آپ نے قیام فرمایا۔ درخت سایہ دار تھا۔ ابھی آپ بیٹھے ہی تھے کہ چند ساربانوں نے آکر منع کیا اور کہا۔ یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، بہت سی جگہیں ہیں اونٹ کہیں بھی بیٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ساربان تشدد پر اُتر آئے۔ حضرت خواجہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے لو بابا ہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں، تمہارے اونٹ ہی بیٹھیں رہیں۔ وہاں سے اٹھ کر آپ اپنے مُریدوں کے ساتھ اناساگر کے قریب پہاڑی پر ٹھہر گئے دوسرے دن ساربانوں نے لاکھ کوشش کی مگر اونٹ کھڑے نہ ہو سکے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے زمین نے انھیں پکڑ لیا ہو۔ ساربان سخت پریشان ہوئے۔ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو مجبوراً راجہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ جب ان کی زبانی اس نے یہ عجیب و غریب واقعہ سنا تو حیرت میں پڑ گیا۔ ناچار اس نے حکم دیا۔ جاؤ اس فقیر سے معافی مانگو جس کی بددعاء کا یہ نتیجہ ہے۔ ساربانوں نے جاکر عاجزی و انکساری سے معافی مانگی۔ آپ نے کمال مہربانی سے فرمایا جاؤ خدا کی مہربانی سے تمہارے اونٹ کھڑے ہو جائیں گے۔ ساربانوں نے واپس آکر دیکھا تو سب کے سب اونٹ کھڑے تھے۔ ان کی خوشی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیں کہ اولیاء کرام کتنے با اختیار ہوتے ہیں اور ولی کو جب اتنا اختیار ہے تو پھر نبی کو کتنا اختیار ہوگا۔ لٰہذا جو کہے کہ جن کا نام محمد و علی ہے وہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں، وہ گمراہ ہے۔

دہلی میں تشریف آوری

حضرت خواجہ غریب نواز اجمیر مقیم تھے تبلیغ و ہدایت میں مشغول تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا دہلی سے ایک عریضہ ملا جس میں انہوں نے اجمیر آنے اور قدم بوسی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جس کے جواب میں خواجہ صاحب نے لکھا ہم خود دہلی آئیں گے اور خواجہ صاحب خود دہلی تشریف لے گئے۔ قطب الدین صاحب کی خانقاہ میں قیام کیا۔ سلطان شمس الدین التمش کو جو اطلاع ملی تو خواجہ صاحب کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوکر گلہائے عقیدت پیش کئے۔ امراء، علماء، مشائخ، عوام و خواص سب ہی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے۔

بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ تعالی

بابا فرید الدین گنج شکر دہلی میں تھے۔ چلہ میں بیٹھے تھے۔ جب خواجہ صاحب کو معلوم ہوا چلّے میں تشریف لے گئے اور حضرت خواجہ صاحب نے بابا فرید کیلئے دعاء فرمائی۔ “خدایا ! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا۔“ غیب سے نداء آئی۔ ہم نے فرید کو قبول کیا۔ وہ وحید عصر ہوگا۔

پیر و مُرشد سے شرف ملاقات

حضرت خواجہ صاحب کے پیرو مُرشد خواجہ عثمان ہارونی نے 611ھ میں دہلی کو زینت بخشی۔ خواجہ صاحب اپنے پیرو مُرشد کی بارگاہ میں حاضر رہے اور پیر کی صحبت میں رہ کر مُرشد کی تربیت و تلقین سے مستفید ہوئے۔ سلطان شمس الدین التمش کو طالب صادق اور مومن کامل پاکر حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنے مُرشد کے فرمان کے مطابق سلطان شمس الدین کی استقامت و تربیت کیلئے ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام “گنج اسرار“ رکھا۔ اسی زمانہ میں حضرت شیخ سعدہ مصنف “گلستان و بوستاں“ بھی دہلی تشریف لائے اور دونوں بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔ حضور خواجہ صاحب کچھ دنوں اور دہلی میں قیام فرما کر اجمیر واپس آئے۔ اور رشد و ہدایت میں مشغول ہوگئے۔ اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ بھی دہلی سے تشریف لے گئے۔
کسان کی سفارش کیلئے دہلی جانا

حضرت خواجہ صاحب دوسری بار سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں 631ھ میں دہلی تشریف لے گئے۔ ایک کسان استمراری یا معیادی فرمان چاہتا تھا۔ کسان کے پیداوار کو حاکم شہر نے ضبط کر لیا تھا۔ شاہی فرمان سے کسان کی مقصد برآری ہوتی تھی۔ کسان یہ چاہتا تھا کہ حضرت ایک سفارشی خط قطب صاحب کو لکھ دیں۔ حضرت نے تھوڑی دیر سوچا پھر فرمایا اگرچہ سفارش سے تیری مقصد برآری آسان ہے مگر اللہ تعالٰی نے مجھے تیرے کام کے لئے متعین کیا ہے لٰہذا میرے ساتھ چل۔
حضرت جب روانہ ہونے لگے تو حضرت کے صاحبزادے حضرت خواجہ فخرالدین نے بھی عرض کیا کہ موضع باندن کی معافی کیلئے سلطان شمس الدین سے میری سفارش فرما دیں۔ حضرت دہلی پہنچ گئے۔ قطب صاحب نے کہا۔ حضرت کا بغیر کسی اطلاع کے کیسے آنا ہوا ؟ بعد میں دریافت کرنے پر خواجہ صاحب نے آمد کی وجہ بتائی۔ حضرت قطب صاحب خود سلطان التمش کے پاس گئے اور کسان کا معاملہ کسان کے حق میں طے کراکے اور موضع باندن کی معافی کا فرمان خواجہ فخرالدین کے حق میں لیکر حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران سب ہی آپ سے ملنے آئے۔ مگر نجم الدین صغرٰی نہیں آئے حالانکہ خراسان میں مل چکے تھے۔ خواجہ صاحب خود ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔ لیکن نجم الدین صغرٰی نے کوئی التفات نہیں برتا حضرت خواجہ صاحب کو ناگوار ہوئی۔ حضرت نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ افسوس ہے کہ شیخ الاسلام کے نشے میں راہ و رسم دیرینہ اور وضع داری قدیم کو یکبارگی ترک کردیا۔ شیخ نجم الدین صغرٰی نے حضرت قطب الدین کی دہلی میں موجودگی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام مخلوق اس کی طرف رجوع ہے۔ میں برائے نام شیخ الاسلام ہوں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے میں ان کو (قطب الدین صاحب) اپنے ہمراہ لے جاؤنگا۔
خواجہ صاحب قطب صاحب کو لیکر اجمیر روانہ ہوئے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ گریاں و حیراں آپ کے پیچھے ہو لئے۔ سلطان التمس حاضر ہو کر خواجہ صاحب سے استدعا کی کہ قطب صاحب کو دہلی میں چھوڑ دیا جائے۔ لوگوں کی حیرانی و پریشانی دیکھ کر قطب صاحب کو دہلی میں چھوڑ کر خود اجمیر شریف روانہ ہوگئے۔ اور باقی دن اجمیر ہی میں رشد و ہدایت کے کام میں گزار دئیے۔
وصال مبارک 633

ھ شروع ہوتے ہی خواجہ صاحب کو علم ہوگیا کہ یہ آخری سال ہے۔ آپ نے مُریدوں کو ضروری ہدایتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ جو خلافت کے اہل تھے انہیں خلافت سے نوازا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اجمیر بلا بھیجا۔ خواجہ صاحب کی جامع مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مقرربین اور احباب حاضر تھے۔ ملک الموت تقریر دل پذیر کا موضوع تھے کہ اچانک شیخ علی سنجری سے مخاطب ہوئے اور خواجہ قطب الدین کی خلافت کا فرمان لکھایا۔ قطب صاحب حاضر خدمت تھے۔ حضور غریب نواز نے اپنا کلاہ مبارک قطب صاحب کے سر پر رکھا۔ اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا۔ خرقہء اقدس پہنایا۔ عصائے مبارک ہاتھ میں دیا۔ مصلٰی کلام پاک، نعلین مبارک مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا۔
یہ نعمتیں میرے بزرگوں سے سلسلہ بہ سلسلہ فقیر تک پہنچی ہیں۔ اب میرا آخری وقت آ پہنچا ہے یہ امانتیں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ حق امانت حتی الامکان ادا کرنا تاکہ قیامت کے دن مجھے اپنے بزرگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ پھر اور بہت سی نصیحتیں فرما کر رخصت کیا۔“633

ھ میں5 / 6/ رجب کی درمیانی شب میں حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے حُجرے میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ رات بھر دُرود اور ذکر کی آواز آتی رہی۔ صُبح ہونے سے پہلے یہ آواز بند ہوگئی۔ آخر مجبوراً دروازہ کھلا تو خدام نے دستکیں دیں اس پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ سورج نکلنے پر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں۔ اور آپ کی نورانی پیشانی پر سبز اور روشن حروف میں لکھا ہوا ہے۔ ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ (یعنی یہ اللہ کے حبیب تھے۔ اللہ کی محبت میں وفات پائی۔)
انتقال کی خبر بجلی کی طرح پورے شہر میں دوڑ گئی اور جنازہ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ فخرالدین نے نماز جنازہ پڑھائی جس حُجرہ میں آپ کا انتقال ہوا وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ جب ہی سے آپ کا آستانہ ہندوستان کا روحانی مرکز ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال یکم رجب سے 6، رجب تک بڑے اہتمام سے ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment